Tabdeeli Ka Aghaz
تبدیلی کا آغاز
زمین نے دھند آلود سرمئی رنگ کی شال اوڑھ رکھی تھی۔ سرد موسم میں قطرہ قطرہ گرتی ہوئی اوس ذرے ذرے کے بدن میں پیوست ہو کر خنکی کو مزید بڑھاوا دے رہی تھی۔ اناؤنسمنٹ ہونے لگی "موسم کی خرابی کے باعث پرواز میں مزید تاخیر ہے"۔ میرے ذہن میں خیال گزرا کہ اس فسوں خیز موسم میں بھلا کیا خرابی ہو سکتی ہے۔ سیاہ و سفید رنگ کی آمیزش لیے موسم بدستور ایسا ہی تھا جیسے کہر آلود شام اماوس کی رات کا منظر پیش کررہی ہو۔
جہاز کے کپتان نے پتا نہیں کیا سوچ کر پرواز کرنے کا فیصلہ کیا۔ جہاز جب رن وے پر دوڑ رہا تھا دھوئیں کے مرغولوں جیسی دھند یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے کائنات تیزی سے دائیں بائیں تحلیل ہوتی جا رہی ہو۔ جہاز اور موسم کے درمیان مقابلہ جاری تھا کہ اچانک جہاز نے جست بھری اور زمین سے جدا ہوتا ہوا فضا میں بلند ہونے لگا۔ میں جو اندھا دھند باہر دیکھنے کے باوجود کچھ بھی واضح منظر نہیں دیکھ پا رہا تھا سوچنے لگا کہ پائلٹ کو اس دھند میں کیا دکھائی دے رہا ہوگا۔
جہاز پوری طاقت کے ساتھ زمین سے اوجھل ہوتا ہوا بادلوں سے اوپر ہی اوپر ہوتا جا رہا تھا۔ پہلے تو بکھرے ہوئے بادلوں کی ٹکڑیاں تھیں۔ پھر جب جہاز ان آنکھ مچولی کھیلتے بادلوں سے مزید اوپر ہوا تو میں نے دیکھا اب اس کے اوپر سرمئی بادلوں کی ایک اور تہہ تھی جو آپس میں قدرے جڑے ہوئے تھے اور قریب سے دیکھنے پر کافی خطرناک دکھائی دے رہے تھے۔ اس تہہ سے بلند ہوئے تو تیسری تہہ منتظر تھی جو ہلکی سفید مگر دبیز تھی۔ فاصلے لیے ہوئے تہہ در تہہ بادلوں کے بستر تھے یا پھر جہاز آسماں در آسماں نقب لگاتا جا رہا تھا۔ یا حیرت! کیا ہم آج ساتویں آسمان پر جانے والے ہیں۔
بادلوں کے آوارہ ٹکڑے تیزی سے لپکتے جہاز سے لپٹتے اور جدا ہو کر بھاگ جاتے، اس ملن بچھڑن میں جہاز ہچکولے کھا رہا تھا یا ہلکورے لے رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ان زور کے جھٹکوں کی وجہ سے ابھی تک سیٹ بیلٹ کھولنے کا نشان آن نہیں ہوا تھا۔ جیسے ہی گہرے سمندر کے اوپر پرواز پہنچی تو یوں محسوس ہوا جیسے کپتان نے اس حالت سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور نیم دائرہ بناتے ہوئے جہاز کو انتہائی بلندی پر لے جانا شروع کر دیا تھا۔
جہاز اچانک کالے اور سرمئی بادلوں سے اوپر نکلا تو یوں دکھائی دیا جیسے طلسم ہوشربا کا دروازہ کھل گیا ہو۔ تاحد نگاہ یوں منظر تھا جیسے چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا کے لیے چاروں طرف کپاس کی گانٹھیں پڑی ہوئی ہیں۔ بادل تھے یا دودھ سے لبریز چاندی کے کٹوروں میں تیرتے ہوئے مکھن کے پیڑے ایک عجب روح پرور منظر تھا۔ ایک طرف سے سورج پوری آب و تاب سے دہک رہا تھا کہ جہاز کی کھڑکی سے اس پر نظریں جمانا ناممکن تھا۔
زمین سورج کی روشنی اور حدت سے محروم تھی اور فضا تھی یا خلا یا پھر کوئی فلک جو سنہری کرنوں سے جگمگا رہا تھا۔ اس سے اوپر نیلگوں آسماں تو تھا مگر بادل، دھند یا کہر نامی کسی شے کا وجود نہیں تھا۔ جہاز نے جہاں اترنا تھا وہاں پر موسلا دھار بارش اور طوفان کا راج تھا۔ بجلی کڑک رہی تھی۔ لیکن زمین کے اس منظر سے اوپر کا جہان کس قدر شانت اور روشن تھا۔
میں نے اس منظر پر غور کیا تو ایک بات کی سمجھ آ گئی کہ بعض اوقات ہماری زندگی بھی اس زمین کی مانند ہو جاتی ہے جو مصیبتوں کی دھند میں لپٹی اور تکلیفوں کی اوس سے اٹی ہوتی ہے۔ برے حالات کالے بادلوں کی مانند ہر وقت ہم پر سایہ فگن رہتے ہیں۔ ہر طرف پھیلے مایوسیوں کے تاریک سائے میں ہمیں کچھ بھی واضح یا حوصلہ افزا منظر دکھائی نہیں دیتا۔
ایسے میں ضرورت ہوتی ہے کہ حالات سے ایک قدم اوپر اٹھ کر ایسی جست لگائی جائے جو پریشانیوں کی زمین سے جدا کرتے ہوئے امید کے روشن آسمانوں تک لے جائے۔ اس وقت حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر حالت میں درست سمت آگے بڑھنے پر آمادہ رکھے۔ کہتے ہیں کہ طوفانی بارشوں اور سیاہ بادلوں سے اوپر ایک جگمگاتا سورج ہمیشہ سے موجود رہتا ہے۔
مشہور ہے کہ، مصیبت میں اندازہ ہوتا آپ کے صبر کا پیمانہ کتنا وسیع ہے۔ کسی سے ہونے والی بحث و تمحیص آپ کی عقل و دانش کا فیصلہ کرتی ہے اور سخت حالات میں لوگوں کی جانچ و پرکھ ہوتی ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کتنی تیاری اور ہمت رکھتے ہیں۔ جب تک کوئی اپنے حالات سے اوپر اٹھ کر تبدیلی کا آغاز نہیں کرتا تب تک وہ عام ڈگر کی زندگی جینے پر مجبور و معمور رہتا ہے۔