Shiv Kumar Thind
شیو کمار تھند
1997 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین ٹورنٹو میں کھیلے جانے والے صحارا کپ کے دوسرے میچ کے دوران پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 116 رنز بنائے تھے، پاکستانی ٹیم کی کپتانی رمیض راجہ کے پاس تھی، پاکستانی ٹیم جب اپنی باری پر کھیل رہی تھی اور انضمام الحق 34 گیندوں پر 10 رنز کے ساتھ کریز پر کھڑے تھے تو تماشائیوں میں بیٹھے ہوئے بھارتی نژاد کینڈین شہری جس کے پاس میگا فون بھی تھا اس نے انضمام الحق اور پاکستانی ٹیم پر آوازیں کسنا شروع کر دیا۔
انضمام الحق کو کبھی "آلو" کبھی "آلو چیس" اور کبھی "سڑا ہوا آلو" کہہ کر ہوٹنگ کی گئی، بلے بازی کے دوران ہی انضمام نے کئی بار اس تماشائی کو خشمگین نگاہوں سے دیکھا۔
جب پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ کی باری آئی تو انضمام الحق باؤنڈری کے نزدیک ہی فیلڈنگ کے لیے کھڑے تھے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کھلاڑی فیلڈنگ کرتے ہوئے عموماً اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر آگے قدرے آگے جھک کر بلے باز پر نظریں جما لیتے ہیں۔
اس دن انضمام بھی ویسے ہی کھڑا تھا تو اسی میگا فون والے تماشائی نے کہنا شروع کردیا کہ "اوئے موٹے آلو" "انضمام کے پیٹ میں آلوؤں نے گڑ بڑ مچا رکھی ہے" "انضمام سڑا ہوا آلو ہے جو سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتا"۔ اسی ہوٹنگ کے درمیان پانی کا وقفہ ہوا تو انضمام نے تھرڈ مین باؤنڈری ایریا کے اوپر سے تماشائیوں کے اسٹینڈ میں چھلانگ لگاتے ہوئے اس تماشائی کو گریبان سے پکڑا اور ٹھکائی کردی۔
اسی دوران پاکستانی بارہویں نمبر کا کھلاڑی پانی کے ساتھ" بلا/بیٹ" بھی لے آیا، جو اس نے انضمام کو تھما دیا لیکن اس سے پہلے کینیڈا کے میچ سیکیورٹی اہلکاروں نے انضمام کو قابو کر لیا۔
آئی سی سی نے انضمام کو قصور وار قرار دیتے ہوئے اگلے دو میچوں میں کھیلنے پر پابندی لگا دی، اور اس تماشائی کو جس کا نام Shiv Kumar Thind تھا کینڈین پولیس لے گئی بعد میں اس کی ضمانت ہوگئی۔
اس سارے واقعے کے بعد جب رمیض راجہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی ٹیم فیلڈنگ کررہی تھی تو پانی کے وقفے کے دوران بلے کا وہاں کیا تُک تھا؟ رمیض نے کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا اور کہا میرے دماغ میں اس وقت دیگر بہت سی باتیں چل رہی ہیں۔
اسی واقعے پر بھارتی سابقہ کھلاڑی سنجے منجریکر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں کھیل مختلف ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا نہیں ہوتا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان کھیلے گئے میچوں میں فاصلے کم ہونے کی بجائے دوریاں اور کشیدگیاں مزید بڑھتی ہیں اور بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔
حالیہ ورلڈ کپ میں جب پاکستانی ٹیم اس دوڑ سے باہر ہوئی تو سرحد پار بہت میمز بنی اور پاکستانی ٹیم کو خوب ٹرول کیا گیا۔ کہیں کہیں کمنٹری اور بھارتی سابقہ کھلاڑیوں کی جانب سے متعصبانہ رویہ بھی سامنے آیا۔ اس کے بعد بھارتی ٹیم فائنل ہار گئی تو تعصب اور ٹرولنگ کا پلڑا ہماری طرف جھک گیا اور ہماری طرف کے عام کرکٹ شائقین سمیت سوشل میڈیا انفلوینسرز اور دیگر لکھاریوں کی جانب سے بھارت ٹیم کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جانے لگا۔
جب پوری دنیا کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہورہی ہے اور دشمنوں کی بجائے نئے دوست بنائے جارہے ہیں تو اس وقت مشرق وسطیٰ سے کہیں زیادہ بڑھ کر پاک بھارت تعلقات کو ہر سطح پر نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ساری صورتحال میں دونوں طرف ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سمجھدار، سنجیدہ اور معتدل مزاج لوگ سامنے آتے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ ایسا کرتے کہ تعلقات میں جمی برف پگھلتی، گرمجوشی دکھائی جاتی اور اسی دوران ہی ایک عدد مثبت ٹیبل ٹاک کا انعقاد ہوجاتا۔
شاید ہر دور کا انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جو گانٹھیں وہ اپنے ہاتھوں سے کَس کر لگاتا ہے وہی گانٹھیں آنے والی نسلیں اپنی دانتوں سے کھولنے کی کوشش میں دانت گنوا بیٹھیں ہیں۔