Shazrawan
شاذروان
کعبہ مشرفہ یا بیت اللہ کے مختلف مقامات مقدسہ اور مختلف حصوں کے متعلق تو آپ جانتے ہیں، پڑھتے رہتے ہیں، دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ لیکن آج میں آپ کو ایک ایسے حصے اور مقام کے متعلق بتانے کی کوشش کروں گا جس کے متعلق یا کم از کم نام کے متعلق اکثریت لاعلم ہیں۔
بیت اللہ کے تین اطراف۔ حجر اسود سے رکن عراقی تک، یا سامنے والا باب کعبہ/ملتزم والا حصہ، حجر اسود سے رکن یمنی، اور رکن یمنی سے رکن شامی تک کا حصہ۔ تین سمتیں بنتی ہیں، چوتھی سمت حطیم یا حجر اسمٰعیل والی ہے اس کو چھوڑ کر باقی تینوں طرف نیچے جہاں سفید سنگ مرمر سے کعبہ کی دیوار شروع ہو کر اوپر کی سمت جاتی ہے۔
یعنی بنیاد سے بالکل اوپر والا حصہ، جہاں پر غلاف ختم ہو کر نیچے کی جانب سنہری حلقوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ وہ حصہ تھوڑا سا باہر کی جانب ابھرا ہوا ڈھلوان کی شکل کا ہے۔ جیسے چھتوں پر منڈیر کا حصہ بڑھا ہوا ہوتا ہے ویسے ہی مطاف کی زمین میں باب کعبہ اور دیگر دو اطراف بیت اللہ کی بنیادوں سے اوپر والا حصہ قدرے اونچا اور ابھرا ہوا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا جب کوئی مینار یا ستون وغیرہ بنایا جاتا ہے تو وہ بنیادوں سے لیکر زمین سے چند فٹ اوپر تک باقی حصے سے زیادہ چوڑا اور سیڑھی نما قدموں کی طرح تین چار درجے بلند ہوتا ہے پھر اس کے وسط سے اوپر ستون یا مینار بلند ہوتا ہے۔ یہ گھیراؤ یا پھیلاؤ ستون کی مضبوطی کے لئے ہوتا ہے۔ کعبہ کی بنیاد کے بعد بھی تین اطراف میں اسی طرح دیواروں کے نیچے بنیاد سے اوپر والا پاٹ قدرے چوڑا اور ڈھلان نما ہے۔ تین اطراف کے اس حصے کو شاذروان کہتے ہیں اور شاذروان عربی کی بجائے فارسی لفظ ہے جو کئی سو سالوں سے اس حصے کے لیے عربی میں مستعمل ہے۔
شاذروان کے متعلق مختلف روایات ہیں، بعض کے نزدیک یہ حصہ خانہ کعبہ کی بنیادوں کو سیلاب کے پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے، بعض کے نزدیک اس پر کڑے لگا کر غلاف کو باندھا جاتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصد و مستعمل ہے، بعض کے نزدیک یہ بیت اللہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ مختلف ادوار میں جب اس کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی تو ابراہیمؑ کی تعمیر کردہ بنیادوں سے باہر نکال کر خانہ کعبہ کی عمارت کو مزید چوڑا اور بڑا کر دیا گیا تھا جسے بعد میں جناب عبد الله بن الزبير نے اصل بنیادوں پر تعمیر کروا کر اس بنیاد کو بیرونی حفاظتی حصار میں بدل دیا تھا۔ واللہ اعلم
اب زائرین اسی شاذروان پر پاؤں جما کر کھڑے ہوتے ہیں اور غلاف کعبہ سے لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ شاذروان کے اوپر پیتل کے سنہرے کڑے یا حلقے لگے ہیں جن کے ساتھ کس کر غلاف کعبہ کو باندھا جاتا ہے۔ شاذروان کا سامنے والا حصہ جو باب کعبہ یعنی ملتزم اور رکن عراقی یا حطیم والے کونے کے درمیان ہے اس حصے کو ایک خاص تاریخی اہمیت حاصل ہے۔
آپ اس حصے کو غور سے دیکھیں تو یہاں پر سرخی مائل بھورے رنگ کی آٹھ عدد ٹائلیں یا پتھر لگے ہوئے ہیں جو رنگت اور حجم میں حرم مکی کے دیگر مرمریں پتھروں سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ ٹائلیں دنیا کی قدیم ترین نایاب ٹائلیں ہیں۔ خلیفہ جعفر بن منصور نے بیت اللہ کے لیے یہ تحفہ بھجوایا تھا اور جہاں یہ ٹائلیں موجودہ وقت میں نصب ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں جبرائیلؑ نے جناب سیدنا محمد ﷺ کے سامنے وضو اور دو بار نماز ادا کر کے طریقہ بتلایا تھا۔
اسی مقام کو سیدنا ابراہیمؑ کی تعمیر کے وقت "معجن" کا نام بھی دیا گیا تھا۔ یہاں اس کے بالکل سامنے ایک چھوٹا سا گڑھا تھا جہاں سے ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ مٹی کھودتے اور اس مقام پر رکھ کر اس مٹی کا گارا بناتے پھر کعبے کی تعمیر میں وہ گارا استعمال کرتے، گوندھی ہوئی مٹی یا گارے کی مناسبت سے اسے معجنِ ابراہیمؑ کہا جانے لگا۔ اصل مقامِ ابراہیمؑ بھی یہی ہے، یہاں پر ہی حجر اسود کے علاوہ جنت سے بھیجے گئے ایک پتھر پر کھڑے ہو کر خلیل اللہ نے بیت اللہ کی تعمیر کی جسے بعد میں ربّ کعبہ نے مقام ابراہیمؑ کہہ کر اسے نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے دیا۔
طویل مدت تک مقام ابراہیمؑ وہاں ہی رہا بعد میں حضرت عمرؓ نے وہاں سے ابراہیمؑ کے پاؤں مبارک کے نشانات والا پتھر اٹھوا کر موجود جگہ پر منتقل کر دیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق آیت الکرسی بھی اسی مقام پر عطا کی گئی تھی۔ واللہ اعلم
سرخی مائل بھورے پتھروں کے سامنے ایک چھوٹا سا گڑھا کافی عرصہ تک مطاف میں موجود رہا تھا۔ لوگ اس کے اندر اتر کر نماز ادا کرتے تھے۔ بیت اللہ کو غسل دینے کے بعد یا بارش کا پانی اس میں جمع ہو جاتا تھا، اور بعد میں وہاں سے نکال کر باہر ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔ بعد میں جب زائرین کی تعداد بڑھنے لگی اور دھکم پیل کا سماں ہونے لگا تو کچھ لوگ اس گڑھے میں گر کر زخمی وغیرہ ہونے لگے تو اس گڑھے کو بند کرکے زمین کو ہموار کر دیا گیا۔
بیت اللہ کی پرانی تصاویر میں وہ گڑھا دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ٹیلیویژن میں دیکھیں یا حرم کے اندر نماز کا موقع ملے تو دیکھیں گے امام کعبہ آج بھی شاذروان پر چسپاں بھورے پتھروں اور معجن کے سامنے جائے نماز بچھا کر امامت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ واللہ اعلم
یہ بھورے پتھر ایک بار چوری ہو گئے تھے بعد میں ایک شخص کے مرنے پر اس کے گھر میں بنے عجائب گھر سے تمام پتھر برآمد ہوئے تھے۔
آپ تصاویر پر کلک کر کے مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
اس مضمون کو لکھنے میں كتاب "شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام" اور دیگر کئی ذرائع سے استفادہ کیا گیا ہے۔