Shab e Zinda Dari
شَبِ زِنْدَہ داری
ﷲ سبحان تعالیٰ نے جب پانی اور زمین کو تخلیق کیا تو زمین ہلنے لگی، زمین کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے کارساز ربّ نے اس پر پہاڑ نصب کردیئے، یعنی کائنات میں ظاہری اور سب سے وزنی چیز جو زمین کی لرزش کو تھام سکتی تھی وہ پہاڑ تھے، پھر پہاڑوں کی آزمائش کے طور پر جب ان پر ذکرِ حق کے نزول کا ارادہ ہوا تو، طور جیسے پہاڑ جو پہلے ہی تجلّی کی تاب نہ لاتے ہوئے جل کر سرمہ بن چکے تھے، وہ مزید کسی آزمائش کے متحمل نہ ہوسکے۔
بالفرض ان پر پیغام رباّنی اتارا جاتا تو خوف سے ان میں بڑے بڑے شگاف پڑجاتے، جس سے وہ ریت کی مانند ریزہ ریزہ ہوجاتے، یعنی وہ اس امانت کا وزن اٹھانے سے معذور تھے۔ وہی امانت جسے کائنات کی سب سے مضبوط شے میں اٹھانے کی سکت نہ تھی، وہ ذکر اور وہی امانت رمضان المبارک کے مہینے میں کسی خاص الخاص گھڑی، سراج منیر ﷺ کے قلب اطہر پر ذکرِ رحمٰن کی صورت اتارا گیا۔
جب ربّ العالمين اپنا ذکر اپنے بندے کے دل پر وحی کررہا تھا تو اس وقت، رحمت للعالمینؐ کے قلب و جسم پر ایک عجیب سی کیفیت تھی، اللّٰہ تعالیٰ کا خوف اور اَسرارِ الٰہی سے واقفیت نے رگ و پے پر لرزہ طاری کررکھا تھا، کپکپی کی کیفیت میں رسول امینؐ نے کچھ الفاظ میں اپنی کیفیت کو بیان کیا تھا، اور کہا تھا "زملونی زملونی" یعنی مجھے چادر یا کمبل اوڑھا دو۔ جب نبی اکرم ﷺ کے جسم اطہر کو چادر میں لپیٹ دیا گیا جس کے تھوڑی دیر بعد قلب و جان پر سکون کی کیفیت پیدا ہوگئی، طبعیت میں ٹھہراؤ آگیا۔
اللہ کریم نے اپنے محبوب کی اس کیفیت اور اس ادا کو اتنا پسند کیا کہ اس واقعے سے منسوب حالت کو رہتی دنیا تک ذکرِ لطیف کی صورت یادگار بنا دیا۔ آخری رسالت کا بارگراں اٹھانے کی ذمہ داری پر دل اقدس کو ڈھارس دینے کے لیے، ربّ تعالیٰ نے سیدالمرسلینؐ کی پہلی وحی کے بعد والی کیفیت کا حوالہ دیتے ہوئے محبت سے ایک خوبصورت نام سے یاد فرمایا اور کہا يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، اے کملی میں لپٹنے والے حبیب، تو نے جب میری اس امانت کو سینے سے لگا لیا ہے جسے تیرے سوا کائنات میں کوئی اور اٹھا نہیں سکتا تھا۔
تو میں جو تیرا ربّ، تیرا تنہائیوں اور محفلوں کا رفیقِ اکبر ہوں، میں جانتا ہوں کہ ایک ایسا بوجھ تجھے سونپ چکا ہوں جسے اٹھائے اٹھائے تیری کمر ٹوٹنے کے قریب ہے، تو میں تیرے دل کی کیفیت کو جانتے ہوئے تجھے، کہتا ہوں کہ تو اپنے دل کو تسلی دینے کی خاطر اپنے آپ کو چند پل کی فراغت دیا کر اور فرصت کے ان لمحوں میں اپنے آپ کو میری عبادت میں پوری یکسوئی سے مشغول کیا کر۔
اس کے لیے رات کے کسی پہر جاگ اور میری عبادت کے لیے نصف شب یا پھر اس سے بھی قلیل وقت کے لیے قیام کر، چاہے اس سے زیادہ قیام کر، یہ شب بیداری تیری سہولت، استطاعت اور طاقت پر منحصر ہے، عبادت کی مشقت میں جتنا تو خود کو تھکا لے اور آزما لے گا تو تجھے مقام محمود پر فائز کردوں گا، اس دوران ٹھہر ٹھہر کر، اطمینان اور محبت سے میرا ذکر کر، اے حبیب ہم تجھ پر امامت اور مزید ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنے والے ہیں۔
جس کے لیے راتوں کے قیام اور ذکر سے ہم تمھارے دل کی سرزمین کو ایسا بنا دیں گے، جہاں وزنی سے وزنی امانت کو اٹھانا، اور گہرے سے گہرا غم برداشت کرنا سہل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں راتوں کی خاص اہمیت ہے، شبِ معراج ہو، شبِ برات ہو یا شبِ قدر ہو، دنیائے آسمان پر آخر شب مالک خود جلوہ افروز ہو، بخشش و مغفرت ہو، عبادت کی لذت اور نور کی برکھا رت ہو، قیام اللیل ہو۔
خواب گاہوں سے پہلوؤں کو الگ رکھنے والے افراد کا ذکرِ خیر ہو یا پھر تہجد سے قرب الٰہی کا حصول ہو، تسبیح کی لذت ہو، ریاکاری سے پاک عبادت ہو، فرشتوں کا نزول ہو، کتاب مبین کا اترنا ہو یا دیگر عبادات ہوں تو رات کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ استغفار کیجیے، درود بر حبیبِ خدا بھیجیے، قیام کیجیے، دعائیں مانگیے، شب بیداری یا شبِ زندہ داری کا موقع میسر ہو تو اسے ضائع مت کیجئے۔
اللَّہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔