Seepiyan
سیپیاں
انیسویں صدی کی بات ہے کہ نیویارک کی گلیوں میں ایک شخص نے ایک پینی کے عوض تین اوئیسٹر بیچنے کی صدا لگائی، لوگوں نے خریدے، اس کے اندر گوشت کے لوتھڑے کو کچا ہی کھا لیا اور سیپیوں کے خول کو سجاوٹ کے لیے گھروں میں رکھ لیا۔
نیویارک میں آہستہ آہستہ سیپیاں کھانے میں دلچسپی بڑھتی گئی حتیٰ کہ سیپیاں کھانے کی مقابلے ہونے شروع ہوگئے اور باقاعدہ چمپئن شپ منعقد ہوئی جس میں دیکھا جاتا تھا کہ ایک منٹ میں کتنی سیپیوں کو کھولا اور کھایا جاتا ہے۔ جس میں کم از کم سو سیپیوں کو کھولنا اور کھانا لازمی ہوتا تھا۔
سیپیوں کو سمندر سے نکالنا، فروخت کرنا اور کھانا باقاعدہ انڈسٹری کی صورت اختیار کرگیا اور آہستہ آہستہ لاکھوں کی تعداد میں سیپیاں سمندر سے نکال کر فروخت ہونے لگیں۔
ایک صبح لوگ جاگے تو دیکھا کہ نیویارک کے ساحل سمندری آلائشوں کے ساتھ اٹے پڑے تھے اور ساحل کے قریب پانی انتہائی گدلا اور بدبودار ہوچکا تھا۔ بعد میں لوگوں کو پتا چلا کہ یہ سب اوئیسٹر کی نسل کو معدوم کرنے کا نتیجہ ہے۔
آبی حیات میں جس طرح مچھلیاں، جھینگے اور دیگر جاندار مخلوقات ہوتی ہیں، ٹھیک اسی طرح سیپ جسے اوئیسٹر کہتے ہیں یہ آبی حیات کا ایک ننھا منا سا جانور ہے۔ سمندری ماحولیاتی نظام میں اس ننھی مخلوق کا بے حد اہم کردار ہے۔ اوئیسٹر ایک سال میں بالغ ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اپنی جنس تبدیل کرنے سے لیکر شکار کرنے، شکاری سے خود کو بچانے کی صلاحیت کے ساتھ بیس سال سے زیادہ عرصہ تک زندگی گزار سکتا ہے۔
ایک بالغ اوئیسٹر سمندری پانی میں موجود آلائشوں کو نگلتے ہوئے اوسطاً یومیہ پچاس گیلن پانی صاف کرتا ہے اور پانی کے اندر یہ کہیں بھی جاسکتا ہے، یا مسلسل سفر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جس طرح ہر جاندار کا دفاعی نظام ہوتا ہے، اسی طرح سیپ کا بھی اپنا مخصوص دفاعی نظام ہوتا ہے جو اسے شکاری سے بچانے یا شکار کرنے کے بھی طاقت فراہم کرتا ہے۔
ایک کنکر، پتھر، کیڑا یا کوئی بھی بیرونی عنصر جو سیپ کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے، سیپ اپنے دفاعی نظام کے تحت لیس دار قسم کا مادہ خارج کرتے ہوئے اس چیز کو جکڑ لیتی ہے، اور پھر اسی لیس دار مادے کے ساتھ اسوقت تک مسلسل اس کے گرد ایک غلاف سا بناتی رہتی ہے جب تک اس کو یقین نہ ہوجائے کہ اب میری گرفت میں آئی ہوئی چیز نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہی۔
بعد میں اسی غلاف میں لپٹی چیز انسان کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے تو نایاب موتی کہلاتی ہے اور انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔
اوئیسٹر جیسی چھوٹی سیپیاں یا دیگر چھوٹے گھونگھے جنہیں Barnacles کہتے ہیں یہ بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی طرح آبی ماحولیاتی آلودگی کو صاف کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ ایک اور بڑا دلچسپ کام کرتے ہیں سمندری پانی میں ساکن یا متحرک کوئی بھی چیز مثلاً کشتی، جہاز، وہیل مچھلیوں یا چٹانوں کے ساتھ یہ بارنیکلز چمٹ جاتے ہیں اور اپنی خوراک حاصل کرنے کے علاوہ اس چیز میں توڑ پھوڑ یا سوراخ کرنے کا عمل شروع کردیتے ہیں۔
جہاز رانی کی انڈسٹری جسے شپنگ انڈسٹری کہتے ہیں اس کو یہ ننھی سی مخلوق لاکھوں ڈالرز کا سالانہ نقصان پہنچاتی ہے۔
ہے نا حیرت انگیز بات کہ چیز تو ہوں میں چھوٹی سی مگر کام کروں گی بڑے بڑے تو ہوتا یوں ہے کہ جب یہ سیپیاں، گھونگھے جہازوں اور کشتیوں کے پیندے سے چُپکے سے چپک جاتے ہیں تو پھر ایک تو اس پیندے میں سوراخ کرتے یا اسے کمزور کرتے ہیں اور دوسرا یہ اپنی کالونیاں بنانا شروع کردیتے ہیں جس سے بحری جہاز کی اوسط رفتار میں ٹھیک ٹھاک فرق آجاتا ہے اسے پانی کو چیرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے اور زیادہ زور کے نتیجے میں فیول کا خرچ الگ اور انجن کی لائف میں کمی الگ واقع ہوتی ہے۔
ان کالونیوں کو صاف کرنے، سوراخوں کو بند کرنے میں ہی جہاز رانی کی صنعت لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔
انسان جس خالق کی پروڈکٹ ہے اس نے اپنی پروڈکٹ کی راہنمائی کے لیے کہیں پر ظاہر اور کہیں پر پوشیدہ نشانیوں کی صورت میں بہت کچھ تخلیق کر رکھا ہے۔
اوئیسٹر کی زندگی بھی اسی راہنما کتابچے کا حصہ ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اگر وہ تعلیم لینا چاہے تو۔۔
پہلی بات انسان کے ذمے جو ڈیوٹی ہے وہ اس نے ہر حال میں نبھانی ہے۔
دوسری بات آپ کسی کے لیے کتنے ضروری ہیں اس بات کا انہیں احساس دلانا ضروری ہے۔
آپ کثیر الجہتی مخلوق ہیں آپ نے مختلف اوقات میں مختلف کام سر انجام دینے ہیں۔
آپ کو اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست خود ہی کرنا ہے۔
آپ کے لیے اپنا گھر بے حد اہم ہے، اس میں کوئی بھی بیرونی عنصر گھسنے کی کوشش کرے اس سے نمٹنے کی خاص صلاحیت کا ہونا ضروری ہے، یعنی محض پھونکوں سے چراغ نہیں بجھایا جاسکتا۔
آپ کی حدود میں کوئی بھی داخل ہو اسے ذہن نشیں کرانا ضروری ہے کہ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے اور میری حدود میں رہنے کی قیمت چکانا ہوگی۔
آپ بے شک جس مقام پر مطمئن ہیں اور ذہنی و قلبی سکون حاصل ہے اسی پر صابر و شاکر رہیں مگر جو آپ سے ٹکرائے اس کی قیمت اور وقعت ضرور بدلو، بے لوث ہوکر اسے بیش قیمت بنا دو چاہے وہ آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
جامد یا ساکن نہ رہیں بلکہ حرکت میں اور سفر میں رہیں مگر اپنی زمین اور اپنے آسمان پر ہی رہیں۔