Sanaa Ka Gadha
صنعاء کا گدھا
کہا جاتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ایک سلطان نے صنعاء کا دورہ کیا تو تمام کا تمام شہر استقبال کے لیے پوری قوت سے امڈ پڑا، شہر کے دروازے پر استقبال کرنے والوں میں سے ایک شخص پر سلطان کی بیوی کی نظر پڑی جس کے پاس سفید رنگ کا ایک خوبصورت گدھا تھا، جس نے اسے بہت متاثر کیا۔ اور اس نے اسی وقت صنعاء کے گورنر سے کہا کہ وہ اس گدھے کو ہمارے سلطانی قافلے کا حصہ بنا دے، تاکہ وہ اسے اپنے ساتھ استنبول لے جائے۔۔
گورنر گدھے کے مالک کے پاس گیا اور اس نے سلطان کی بیوی کی خواہش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمھارے لیے یہ سعادت کی بات ہے، لہٰذا یہ گدھا بطورِ ہدیہ انہیں دے دو۔ گدھے کے مالک نے یہ سن کر گورنر سے معذرت کی اور کہا جناب میں اس گدھے کو ہرگز ہرگز قیمتاً یا ہدیتہً نہیں دینا چاہوں گا۔
گورنر نے پیشکش کی کہ اسے منہ مانگی قیمت کے عوض ہی فروخت کردو، لیکن اس نے انکار پر اصرار کیا اور گورنر سے کہا، میرے پاس اعلیٰ نسل (اجیاد) کے چھ گھوڑے ہیں، ان جیسے دوسرے گھوڑے پوری سلطنت عثمانیہ میں نہیں ہوں گے، سلطان کی بیوی کو چھ کے چھ گھوڑے بطور تحفہ مفت دینے کے لیے تیار ہوں، لیکن گدھا کسی قیمت پر بھی نہیں۔
گورنر کے لیے یہ جواب انوکھا تھا، حیرانی کے ساتھ اس نے گدھے کے مالک سے اس رویے کی وجہ پوچھی، اس نے جواب دیا، بادشاہوں کی باتیں اور ان کی چیزوں کا چرچا سلطنت کے اندر اور سلطنت سے باہر ہر جگہ ہوتا ہے، بادشاہوں کے کام تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، تو اگر سلطان کی بیوی اس گدھے کو اپنے ملک لے گئی، وہاں جب اس تحفے کا چرچا زبان زد عام ہو جائے گا، اور وہ پوچھیں گے، یہ گدھا کہاں کا ہے، بتایا جائے گا، یہ گدھا صنعاء کا ہے، پھر وہ کہیں گے، کیا وہاں گدھوں سے بڑھ کر کوئی ایسی کام کی چیز نہیں تھی جو سلطان کی بیوی کو پسند آتی، کیا صنعاء میں سلطان کو گدھوں کے سوا کوئی نہیں ملا تھا؟ میں نہیں چاہتا کہ تاریخ میں یہ بات میرے شہر کے حوالے سے لکھی جائے کہ وہاں کی سب سے بہترین چیز گدھے تھے۔
گورنر یہ جواب سن کر چلا گیا اور سلطانہ کو جب یہ بات بتائی تو اس نے ہنستے ہوئے اس شخص کی بے حد تعریف کی اور اسے مالی انعام اور سلطنت عثمانیہ کا علامتی تمغہ دینے کا حکم دیا۔
آپ چھوٹے ہیں یا بڑے، با اختیار ہیں یا بے اختیار، آپ کے پاس یہ اختیار بالکل ذاتی ہوتا ہے کہ آپ اپنی شناخت، اپنا حوالہ اور خود سے وابستہ چیزوں کا تعارف کس حوالے سے کراتے ہیں، آپ اپنی مٹی کے سفیر ہوتے ہیں، آپ وطن سے محبت کریں یا نفرت، آپ کا پہلا بڑا حوالہ وطن اور دوسرا بڑا حوالہ کردار کا ہوتا ہے، آپ اپنی ذاتی حیثیت میں اس حوالے کی پہچان، شناخت، تعارف کیسے کرواتے ہیں یہ سراسر آپ کی صوابدید پر منحصر ہے۔