Michelangelo
مائیکل اینجلو
یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے عروج میں فنون لطیفہ میں سنگتراشی کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ مجسمہ سازی کا فن اپنے عہد عروج میں تھا اور اسی دوران فلورنس میں تئیس چوبیس سالہ نوجوان کو ایک غیر معمولی مجسمہ بنانے کا کام سونپا گیا، یہ مجسمہ کوئی عام مجسمہ نہیں تھا، بلکہ بائبل کے تاريخ ساز کردار کا مجسمہ تھا، بنانے والا مائیکل اینجلو بھی مشہور ہونے کے اوائل میں تھا اور مجسمے میں ڈھلنے والا بھی اپنے زمانے کا دلیر پیغامبر داؤدؑ تھا۔
مائیکل اینجلو نے اوزار سنبھالے، جگہ مختص کی اور سنگ مرمر کا دیو قامت سالم ٹکڑا لے کر اسے چھیلنے میں جت گیا، جیسے جیسے دھول ہٹتی گئی، سنگتراشی سے پتھر میں سے دیوتا کا ظہور ہوتا گیا۔ فن میں مہارت، مستقل مزاجی اور مقصد کے امتزاج کے ساتھ پتھر کو مورت میں ڈھالتے لگ بھگ دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ تکمیل کے بعد جب مجسمے سے نقاب اٹھایا گیا تو شرق و غرب حیرت دانتوں میں انگلیاں دابے ساکت تھی، کہ بلاشبہ وہ مجسمہ اس سے قبل انسانی تاریخ، یونانی و لاطینی اساطیری کہانیوں کے دیوتاؤں کے زمین پر نصب مجسموں سے کہیں بڑھ کر حسین و جمیل شاہکار تھا۔
لوگوں کے سامنے ایک نئے دیوتا کا ظہور ہوچکا تھا اور یہ دیوتا فن کے اوج کمال کو چھونے والا مائیکل اینجلو تھا، مگر فن اور فنکار کی عظمت کے ساتھ حاسد اور نقاد کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس کمیشن نے مائیکل کو کام سونپا تھا اسی کمیشن کے ایک ممبر نے مجسمے کو پاس کرنے سے پہلے مجسمہ پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا بلاشبہ یہ نہایت خوبصورت فن پارہ ہے مگر بے عیب نہیں ہے، وہاں پر موجود ہر شخص کا چونکنا فطری تھا، کہنے والا کہہ رہا تھا اس کی ناک بڑی اور بھدی ہے جو مجسمے کے حسن کو گہنا رہی ہے۔
مائیکل اینجلو جو اپنے شہکار کے ذرے ذرے سے جھلکتی محنت اور ہنرمندی سے پوری طرح باخبر تھا، اس نے پرسکون رہتے ہوئے بغیر کوئی بحث کیے ادائے بے نیازی کے ساتھ ہتھوڑا چھینی اٹھائی، مجسمہ جو کئی فٹ بلند تھا اسکے ساتھ سیڑھی نصب کروائی اور اس کی ناک پر چھینی رکھ کر ہتھوڑے کی ضربیں لگانا شروع کر دیں، جب سنگ مر مر کے ٹکڑے زمین پر گرے اور دھول فضا میں بلند ہوئی تو مائیکل ہاتھ جھاڑتا ہوا نیچے اترا اور استفہامیہ نگاہوں سے ناقد کی جانب دیکھا تو وہ فخریہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا بلاشبہ اب یہ مجسمہ اس کی آنکھوں کے سامنے درستی کے مرحلے سے گزر کر عالمگیر خوبصورتی میں ڈھل چکا ہے۔
مائیکل اینجلو چاہتا تو دفاعی بحث میں پڑ جاتا اور اڑ جاتا کہ میری دوسالہ محنت جس میں ایک ایک انگ ایک زاویے کو سو سو بار تراش خراش سے گزار کر جیتے جاگتے بدن جیسا بت بنایا ہے وہ غلط نہیں ہوسکتا بلکہ دیکھنے والی نگاہ میں کجی ہے، مگر وہ ادراک و شعور کے اس درجے پر تھا جہاں فن، فنکار اور تخلیق سے پہلے ذہانت ہوتی ہے، اس نے اپنے نکتہ نظر سے سمجھوتہ کیے بغیر نقاد کی آواز کو عزت بخشی۔
اس نے اسی ذہانت سے کام لیتے ہوئے اوزار تھامتے وقت مٹھی میں سنگ مرمر کی دھول اور ذرات سمیٹے اور فرضی ضربوں کے بعد مٹھی کھول کر دھول اڑا دی تو ناقد سمیت سب نے یہی جانا کہ اب ناک متناسب ہوچکی ہے۔۔ آخر میں، مجسمے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، پھر بھی نہ صرف مائیکل اینجیلو کی مہارت بلکہ انسانی فطرت میں اس کی دانشمندی اور بصیرت کا ایسا ثبوت ہے جس کا آج تک کوئی بھی ہم پلہ نہیں ہے۔ میچورٹی کا ایک لیول یہ بھی ہے کہ جذباتی ہوئے بغیر ذہن کے استعمال سے ناقد اور حاسد سے چڑ کھائے بنا بھی اسے سنبھالا جاسکتا ہے۔