Meri Classic Car
میری کلاسک کار
میرے پاس پرانے ماڈل کی لیکن بہترین کنڈیشن میں نایاب کلاسک کار تھی۔ قریبی جگہوں پر جانا ہوتا تو باپ دادا کی محدود جمع پونجی سے کچھ پیسے نکال کر فیول ڈلوا لیتا اور موج مستی کرلیتا۔ لیکن کہیں دور دراز جانا ہوتا تو نہ باپ دادا کے پیسے پورے پڑتے اور نہ ہی یاروں دوستوں کی مدد امداد کام آتی۔ میں نے کئی بار سوچا شاید میں فضول خرچ ہوں اس لیے کچھ جوشیلے ڈرائیور بھی رکھ کر دیکھے مگر بات وہی ڈھاک کے تین پات والی تھی۔
میرا دل کرتا تھا بلکہ میں نے پکا سوچ رکھا تھا کہ اس کلاسک کار کے ذریعے سفر کرکے، شمالی علاقہ جات کی سر سبز حسین وادیاں میری منزل ہیں مگر، وہاں جانے کے لیے نہ تو فیول کے لیے پیسے ہوتے اور نہ ہی سفر اور رہائش کے علاوہ دیگر اخراجات کے لیے۔ ایک بار دو چار دوستوں کے ذریعے پتا چلا کہ دارالحکومت میں چند ایسے فیول اسٹیشن ہیں، جہاں بڑے دوستوں کے تعاون سے اگر اپنی زمین جائیداد کے کاغذات وغیرہ وہاں رہن رکھوا دیں تو کافی مقدار میں فیول مل سکتا ہے۔
جیسے جیسے پیسے آتے جائیں، اصل رقم بیاج کے ساتھ ادا کرکے، گروی رکھے گئے اثاثے واپس لے لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے فوراً ان فیول اسٹیشنز کے سامنے کشکول رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی شرائط اور میری زمینوں کے بدلے معقول مقدار میں فیول دینے کی حامی بھر لی۔ میں نے گاڑی میں فیول ڈلوایا اور نکل پڑا اپنے خوابوں کی سر زمین کی طرف۔ شاہراہ پر میرے ارد گرد دیگر گاڑیاں بھی تھیں جو دھیرے دھیرے چل رہی تھیں۔
مگر میں اپنی کلاسک کار اور مفت فیول کے نشے میں اتنا سرشار تھا، کہ اپنی گاڑی کو بگٹٹ بھگاتا رہا۔ ساتھ ساتھ چلا کر ارد گرد والی گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات سے کہتا، ادھر مجھے اور میری گاڑی کو دیکھو میری اسپیڈاں چیک کرو۔ مگر وہ لوگ اپنی دھیمی چال سے چلتے رہے اور میں جس کو شمالی علاقہ جات جانے کا شوق تھا مگر نہ سمت کا اندازہ تھا نہ کوئی سمت نما ہمدرد ساتھ تھا، اندھا دھند بے سمت سفر کرتے ہوئے کئی بار غلط موڑ مڑ گیا۔
جہاں سے واپسی کے لیے لمبا چکر کاٹنا پڑتا رہا اور اکثر تو غلط علاقوں میں چلا گیا، جہاں میری گاڑی کو کافی نقصان بھی پہنچتا رہا۔ ابھی شمالی علاقہ جات کا نام و نشان بھی نہیں نظر آیا تھا کہ اچانک نظر پڑی کہ فیول تو بس ختم ہونے والا ہے۔ یہ دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا۔ چند لوگوں سے پوچھنے پر پتا چلا کہ باقی ماندہ فیول کے ساتھ واپس دارالحکومت تو کسی طرح پہنچ سکتا ہوں مگر خوابوں کی سر زمین پر پہنچنا نا ممکن ہے۔
بڑا غصہ آیا کہ انہوں نے نا کافی فیول دیا اور میں نے نہ ہی چیک کیا اور نہ ہی اضافی ٹینک بھروا کر ڈگی میں رکھے۔ اب واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا، جیسے تیسے کرکے واپس پہنچا اور سیدھا اس فیول اسٹیشن پر گیا۔ ان سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ فیول دیتے ہی اتنا ہیں جس سے بندہ منزل پر تو نہیں پہنچ سکتا مگر واپس ضرور آ سکتا ہے۔ اور یہ ان کی شرائط میں درج تھا جن پر میرے انگوٹھے لگے ہوئے تھے۔ اب کسی اور نے مشورہ دیا کہ اپنی گاڑی کے کاغذات رہن رکھ کر دوسرے فیول اسٹیشن سے فیول مل سکتا ہے۔
اب یہی چارہ بچا تھا۔ وہاں گاڑی کے کاغذات گروی رکھ کر اور ساتھ دوستوں کی ضمانت دے کر فیول لے لیا۔ اب جیسے ہی پہلے والوں کو پتا چلا کہ میں نے فلاں جگہ سے بھی فیول لے لیا ہے تو انہوں نے فوراً مطالبہ کیا کہ ہمارے فیول کی پہلی قسط بیاج سمیت واپس کرو۔ کچھ دوستوں کو بیچ میں ڈال کر مسئلے کا حل یوں نکالا کہ جس دوسری جگہ سے فیول لیا، ان سے ادھار لیا ہوا آدھا فیول، پہلے والوں کو پہلی قسط کی شکل میں واپس کیا اور دوبارہ شمالی علاقہ جات کی طرف نکل پڑا۔
صاحبو اب صورتحال یہ ہے کہ میرے پاس نہ کوئی وسائل ہے اور نہ کوئی جائداد باقی ہے۔ جیسے تیسے کر کے مانگ کر سفر کرتا ہوں تو فیول ختم ہونے پر آدھے رستے سے واپس آنا پڑتا ہے۔ بس پچھلی پون صدی سے میری اور میری کلاسک کار کی زندگی اس شعر کے مصداق گزرتی جا رہی ہے۔
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
اگر آپ مجھے حکمران، میری کلاسک کار کو میرا وطن، فیول کو مالیاتی ذخائر، ادھار فیول دینے والوں کو قرضہ دینے والے غیر ملکی ادارے، اور شمالی علاقہ جات کو میری ترقی کا ہدف سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی اپنی سمجھ بوجھ ہے۔ میری کہانی کا ان اعشاریوں اور اشاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔