Mehangai Ka Nanga Naach
مہنگائی کا ننگا ناچ
جب سے پاکستان بنا ہے تب سے لے کر آج تک کوئی بھی دورِ حکومت ایسا نہیں گزرا جس میں مہنگائی کا ننگا ناچ نہ ہوا ہو یا لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے لیے زندگی دشوار نہ ہوئی ہو۔ غریب کے لیے ہر دور میں جینا بشمول موجودہ حالات کسی عذاب سے کم نہیں رہا ہے، اسے ہمیشہ سے بچوں کے لیے روزی روٹی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے محرومی کا سامنا رہا ہے۔ اسے آلو پیاز خریدتے ہوئے بھی لاکھوں سوچوں کا سامنا رہا ہے۔
آپ ماضی کی کسی بھی تاریخ کا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کوئی بھی نئی خبر نئی نہیں لگے گی اور کوئی بھی پرانی خبر پرانی نہیں لگے گی، ہر نیا دورِ حکومت پچھلی حکومت سے بدترین ہی رہا ہے، آپ کو ہر دور کے اخبار مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے لوگوں کے احتجاج، بیروزگاری، بھوک سے تنگ آکر لخت جگر کو فروخت اور خود کشی کرنے والی ایک جیسی خبروں سے بھرے ہوئے ملیں گے۔
مگر ہوتا یہ رہا ہے کہ غربت، بھوک اور مہنگائی صرف لوئر مڈل کلاس اور سب سے نچلے طبقے کی قوت خرید کا ہی مسئلہ رہتی تھی اس لیے مڈل کلاس اور دیگر اپر کلاسز بشمول مقتدرہ جھوٹے سچے احتجاج، مہنگائی مکاؤ مارچ اور ہڑتالیں وغیرہ دکھاوے کے لیے کرتے تھے مگر یہ مہنگائی ان تک براہ راست نہیں پہنچتی تھی اس لیے ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر لوڈشیڈنگ کے مسائل پر بات کرتے، چائے پانی پیتے اور بات فائلوں سے آگے نہیں بڑھتی تھی اس ہاؤ ہو میں وہ اپنے لیے متبادل سہولیات کا انتظام کروا لیتے تھے۔
مگر یہ دوسری بار ہوا ہے کہ ملک میں بدترین مہنگائی، لاقانونیت اور ریاستی جبر پوری طاقت کے ساتھ جہاں نچلے طبقات کو پیس رہا ہے وہاں پر بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کی بھرمار کی صورت میں مڈل کلاس یا بورژوائی طبقے کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اب موجود مڈل کلاس لوگوں کو بھی وقتی طور پر تھوڑا بہت احساس ہونے لگا ہے کہ ہاں واقعی مہنگائی جب قوت خرید سے بڑھ جائے تو جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔
اب یہ کلاس براہ راست متاثرین میں شامل ہوئی ہے تو ہر دوسرا بورژوا اور پیٹی بورژوا نچلے طبقے کے لوگوں کو اُکسا رہا ہے کہ یہ کر دو وہ کردو مگر آج بھی یہ بورژوائی طبقہ فقط اپنے مفادات کی حد تک کسمسا رہا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر بجلی کے بل میں سبسڈی یا کسی دوسری صورت میں رعایت مل گئی تو بچے کے لیے دودھ ہو یا والدین کے لیے دوا باقی مہنگائی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ کسی بھی طرح براہ راست متاثرین میں نہیں آتا اسی لیے آپ اس کو دیگر کسی بھی اجتماعی مسائل پر متحرک نہیں دیکھیں گے۔
یہ طبقہ چالاک بھی بے حد ہوتا ہے جب تک اس کے مفادات پر براہ راست ضرب نہ لگے تو تب تک اس کے پاس من مرضی کے اعدادوشمار ہوتے ہیں جس کے کرشمے پر یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ہمارا ملک اب بھی کئی ممالک سے سستا ہے، یا پھر مہنگائی پوری دنیا میں ہورہی ہے وغیرہ وغیرہ کیوں کہ تاریخ کا جہاں تک مطالعہ کریں تو وہ پہلا دور جس میں مڈل کلاس براہ راست متاثر ہوئی تھی اور موجودہ دور کی مڈل کلاس اپنے بیانات اور اعلانات تک ایک جیسے رویے کی حامل ہے۔
اچھا ایک بات یہ میرا اندازہ ہے کہ بورژوا طبقہ براہ راست متاثر ہو رہا ہے ہوسکتا ہے سموک اسکرین بنا کر اس کے پیچھے کوئی اور مقصد ہو یا پھر ایک پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ لٹیرا اس کلاس کی مرضی کا نہیں ہے اس لیے مہنگائی کا جن انہیں نظر آگیا ہے۔
یہ طبقہ اس طبقاتی نظام کا براہ راست بینفیشری ہے اس لیے اس طبقے نے کبھی بھی استحصالی نظام کے خلاف بغاوت نہیں کی یہ ہمیشہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں لوگوں کو الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ کوئی بڑی سوچ سوچ ہی نہ سکیں۔