Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Khud Ko Azad Kar Lein

Khud Ko Azad Kar Lein

خود کو آزاد کر لیں

بس کے اندر چالیس مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو، ایک قطار میں دائیں طرف بیس نشستیں اس طرح ہوں کہ دو دو نشستیں آپس میں متصل ہوں۔ درمیان میں مسافروں کے گزرنے کی جگہ اور پھر اسی ترتیب سے بس کے اندر بائیں جانب بھی بیس نشستیں ہوں۔

اب ان چالیس نشستوں پر بیس مسافر اس طرح بیٹھے ہوں کہ ہر دو نشستوں پر ایک ہی آدمی کا قبضہ ہو۔ اب بس ایک اسٹاپ پر رکے اور وہاں سے اکیسواں مسافر سوار ہو کر جیسے ہی بیٹھنے کے لیے دائیں بائیں خالی نشست کے لیے نظریں گھمائے گا تو پہلے سے بیٹھے ہوئے بیس کے بیس افراد کے دل و دماغ میں کھلبلی سی مچ جائے گی، ہر کوئی یہی سوچے گا کہ یہ مسافر میرے ساتھ خالی جگہ پر بیٹھنے کی بجائے کسی دوسرے کے ساتھ ہی بیٹھے۔ کچھ تو نظروں ہی نظروں میں اشارے سے سمجھائیں گے کہ ادھر آگے ہی کسی کے ساتھ بیٹھ جاؤ پیچھے مت جاؤ۔

اب ایسا کیوں ہوتا ہے؟

انسان کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر اپنے تصرف میں لے آتا ہے۔

انسیت اور وابستگی فطری احساسات ہیں مگر اپنے سے وابستہ جز وقتی چیزوں یا رشتوں کا حاکم بن بیٹھنا یہ ہرگز فطری نہیں ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں ایسا ہی ہوتا ہے کسی عہدے یا کسی پوسٹ پر پہلے سے براجمان شخص یہی چاہتا ہے کہ میری نشست میرے پاس ہی رہے۔ وہ کسی دوسرے کو وہ حقوق دینے کا روادار نہیں ہوتا جو خود اس نے حاصل کر رکھے ہوتے ہیں۔

کسی سے دوستی یا کوئی اور تعلق ہو تو ہم وابستگی میں اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ اسے اپنا غلام سمجھنے لگ جاتے ہیں، اور اپنے اشاروں پر اسے حرکت کرتا ہوا دیکھنے کی خواہش دل و دماغ میں گردش کرنے لگتی ہے۔ صرف میرا ہو کر رہ جائے یا میری اس سے جو توقعات ہیں وہ اس پر ہر صورت اور ہر وقت پورا اترتا رہے۔ اور کسی کمزور لمحے میں جب کوئی ہماری توقعات اور خواہشات کو پورا نہیں کر پاتا تو ہمارے پاس اس کے لیے سوائے نفرت کے کوئی اور جذبہ باقی نہیں بچتا۔ غصہ اور نفرت کا مطلب کسی کی غلطی کی سزا خود کو دینا ہے۔

مختلف مذاہب جیسے بدھ مت کا مطالعہ کریں تو بدھا کے اقوال میں جا بجا وابستگی سے منع کیا گیا ہے۔

"تمام دکھ اور غم وابستگی سے جنم لیتے ہیں" گوتم بدھ۔

ہر چیز اپنے اصل میں ہمیشہ برقرار رہتی ہے، مگر جو چیز بدلتی ہے اور ہمیں دکھ دیتی ہے وہ دوسروں سے وابستہ کی گئی ہماری توقعات اور وابستگیاں ہوتی ہیں۔ بنیادی طور پر انسان کمزور ہے، وہ کسی دوسرے کی توقعات پورا کرنے پر قادر ہی نہیں ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہندسوں کے بدلنے سے انسان کی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ ماہ و سال کے تبدیل ہونے سے قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے۔ تو اس نئے سال میں ایک کام ضرور کریں۔ خود کو آزاد کر لیں۔ آزاد ہر اس غیر فطری وابستگی سے جو جز وقتی اور سود و زیاں سے بندھی ہے۔ آزاد ہر اس توقع سے جو مفاد پرستی سے آگے اندھی ہے۔

آپ سب کو سال نو مبارک ہو! دعا ہے یہ عیسوی سال آپ سب کو راس آئے۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas