Kainaat Ki Poshida Quwatein
کائنات کی پوشیدہ قوتیں
سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہد میں سانس لینے اور عصری علوم کو پڑھنے کے بعد میرا ذہن خودبخود ہر چیز کو عقلی بنیادوں پر پرکھنے لگا ہے، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ عقل و منطق کے میدانوں سے باہر کوئی انہونی یا اتفاق رونما ہو اور وہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ کائنات میں کوئی ایسی خفیہ قوت ضرور ہے جو عقل و فہم سے ماورا ہے، جیسے بن دیکھے کشش ثقل پر ہر کسی کا یقین ہے کہ واقعی زیر زمین کوئی تماشا ضرور ہے جو ہر کس و ناکس کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ ایسے ہی زمین سے اوپر بھی کوئی بالائی کشش ضرور ہے جو مخلوق کو مدار سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔
میں سوچتا ہوں کہ ایسے ہی کائنات کے اندر بے شمار خفیہ طاقتیں، قوتیں موجود ہیں جن کا ادراک کرنا تجربات و مشاہدات کے دائروں سے باہر ہے۔ ہمارے اردگرد ہر پل کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور رونما ہو رہا ہوتا ہے، اتفاقات و حادثات کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے جس تک ہم پہنچ پاتے ہیں یا نہیں یہ ہمارے فہم و تدبر پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ جب اپنے ساتھ بیتے واقعات کو یاد کرتے ہیں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ کوئی بھی اتفاق محض اتفاقیہ نہیں ہوتا۔
گزشتہ کل کی بات ہے، ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی، بات چیت سے پتا چلا کہ کال کرنے والے موصوف میرے کولیگ رہ چکے ہیں اور دور پار کے کسی ملک میں مقیم ہیں، وہاں ہی جا رہے تھے کہ ہمارے ملک سے گزرتے ہوئے ایک دن کا ٹرانزٹ ویزہ لے لیا اور مجھے فون کر کے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ لگ بھگ گھنٹہ بھر کی مسافت طے کر کے وہاں پہنچا۔
دوست کو ملا اور کھانا وغیرہ کھانے کے بعد پوچھا کہ تمھارا مختصر سا قیام ہے بتاؤ یہاں کی کوئی خاص جگہ دیکھنے کا شوق ہے یا پھر میں اپنی مرضی سے لے چلوں، دوست کہنے لگا نہیں میں نے انٹرنیٹ سے تلاش کیا ہے ایک جگہ پسند آئی ہے وہاں چلتے ہیں، وہاں سے وہ جگہ مزید گھنٹہ بھر کی مسافت پر تھی، وہ ایک مصروف ساحلی علاقہ تھا، ثقافتی ورثہ کے طور پر یہاں ان قدیم ماہی گیروں کی کالونیاں تھیں جن کے آباؤ اجداد مچھلی کے شکار کے ساتھ ساتھ سمندر کی تہہ سے "موتی" نکالنے کا کام بھی کرتے تھے۔
اس طویل ساحلی پٹی پر چلتے چلتے ہم کھلے سمندر اور جیٹی کے قریب چلے گئے، وہاں سنگی بنچ تھے، سوچا یہاں بیٹھ کر تھوڑی دیر سستا لیا جائے، جہاں ہم بیٹھے وہ باقی ساحل کی نسبتاََ ایک تاریک اور پرسکون گوشہ تھا، خوبصورت نظارہ تھا، تاحد نگاہ ڈولتی ہوئی چھوٹی بڑی کشتیاں پانی میں لنگر انداز تھیں، ساحل پر ریت اور سیپیوں کے درمیان بے ترتیب بکھرے ہوئے مچھلی پکڑنے والے جال اور آہنی پنجرے پڑے تھے۔
بیٹھنے کی دیر تھی کہ مختلف سمتوں سے دس پندرہ بلیاں نمودار ہوئیں جن میں سے چند ایک ہمارے نزدیک اور چند ایک دور بیٹھ کر چیاؤں میاؤں کرنے لگیں، میاؤں میاؤں کی آواز بڑی عجیب سی تھی جیسے کوئی درد سے کراہ رہا ہو۔ میں نے سوچا شاید آج انہیں کھانے کو مچھلی نہیں ملی اور یہ بھوکی ہیں تو کھانے کی حسرت میں ہمارے اردگرد منڈلانے لگی ہیں۔
اس وقت ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو بلیوں کے کام آ سکتی تھی، کھانے پینے والے سٹال اور کیفے دور تھے، میں نے سوچا تھوڑی دیر بعد ان کے لیے کچھ لے کر آتا ہوں، تقریباََ پون گھنٹہ ہم وہاں بیٹھے گپ شپ کرتے رہے اور بلیاں بھی وہاں مسلسل ہمارے اردگرد منڈلاتی رہیں۔ جب وہاں سے اٹھنے لگے تو میری نظر قدرے دور ایک جال پر پڑی جو بے ترتیب گول مول سا پڑا ہوا تھا، اس میں عجیب بات یہ تھی کہ وہ مسلسل اچھلنے کے انداز میں ہل رہا تھا۔
میں نے سوچا شاید کوئی مچھلی وغیرہ پھنسی ہو گی اور ایسے ہی بلا ارادتاً قدم اس جانب اٹھتے چلے گئے، قریب جا کر موبائل کی روشنی میں دیکھا تو حیران رہ گیا وہاں ایک ننھا منا چھوٹا سا بلی کا بلونگڑا مچھلی کے جال میں بری طرح پھنسا ہوا تھا اور وہ باہر نکلنے کی جتنی کوشش کرتا اتنا ہی جال کی باریک رسی اس کے گلے کو کاٹ رہی تھی، جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو ساری بلیاں بھی وہاں نزدیک آ کر چپ چاپ بیٹھ گئیں۔
میں نے بڑی مشکل سے جال کی رسی کو ہاتھوں سے کاٹ کر اس بلونگڑے کو نکالا تو بلیاں یوں اچھلنے لگیں جیسے کوئی خوشی سے مست دیوانہ وار رقص کر رہا ہو۔ میں نے جانا کہ بلیاں بھوک کی بجائے اپنے بلونگڑے کی رہائی کے لیے ہمارے اردگرد منڈلا رہی تھیں اور ہم اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی ان کی زبان اور ان کا درد سمجھنے سے قاصر تھے۔ میں اس کے بعد بڑی دیر تک سوچتا رہا اور دوست سے اسی موضوع پر بات کرتا رہا کہ کیا یہ سب محض اتفاق تھا؟
یورپ جاتے ہوئے اچانک تمھارا یہاں رک جانا، پھر مجھے کہنا کہ فلاں جگہ چلنا ہے، اور پھر ساحل پر سینکڑوں افراد کا رش ہونے کے باوجود ایک کونہ خالی اور سنسان ملنا، پھر ہمارا وہاں چلتے چلتے اس گوشے میں بیٹھنے کا فیصلہ کرنا، اور پھر دھیان مسلسل بلیوں کی آوازوں میں ہی الجھا رہنا، یہ سب کیا کسی نادیدہ قوت کا پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا یا محض حادثاتی واقعہ تھا؟
میں تو جتنا سوچتا ہوں یہی سمجھ آتی ہے کہ کائنات کے اندر محیر العقول اور عجیب و غریب واقعات کے سامنے ہماری ناتواں عقل فی الحال بے بس ہے۔