Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Jang (1)

Jang (1)

جنگ (1)

حضرات و خواتین دنیا میں جب کہیں پر جنگ کے بادل چھائے ہوں، اور کہیں پر برس رہے ہوں، تو ایسے میں میری ایک افسانہ نما تحریر "جنگ" کو ضرور پڑھیں، پہلی بار گزارش ہے کہ مکمل ضرور پڑھیے گا۔ شکریہ

گلیشئر کے محاذ پر، کوہِ قاتل جہاں فوج کی آخری سرحدی چوکی تھی، وہاں فرائض انجام دینے والے جوانوں کے لیےکوہِ قاتل کے برفانی دامن میں ایک چھوٹا سا بیس کیمپ بنا ہوا تھا، جہاں جوانوں کی موسم پذیری، کھانے پینے کے سامان، اسلحے اور رسد و کمک کے حربی سازو سامان کے علاوہ مختلف قسم کے شعبہ جات کے لیے الگ الگ چھوٹے چھوٹے خیمے لگے ہوئے تھے۔ بیس کیمپ پر جب سورج کی گرم روپیلی کرنوں کے ساتھ زندگی بھی حرارت پکڑنے لگی، تو لانس نائیک شبیر گجر جو دو روز قبل، آخری چوکی سے باون دن ڈیوٹی دینے کے بعد لوٹا تھا۔

اگلے مورچوں کی اعصابی و جسمانی تھکاوٹ اتارنے کے بعد، تازہ دم ہوکر، ناشتہ کے فوراََ بعد، دفتری امور کے متعلق ایک خیمے کے باہر جا کھڑا ہوا، اندر ٹائپ رائٹر کے چلنے، فیلڈ فون کی گھنٹی اور دو افراد کی ملی جلی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔ شبیر گجر نے خیمے کا پردہ سرکا کر اندر جھانکا، اندرونی ملگجی روشنی سے آنکھیں جیسے ہی مانوس ہوئیں تو دیکھا، حوالدار افتخار جنجوعہ فون پر باتیں کرنے اور سپاہی نذیر مرزا ٹائپ رائٹر پر انگلیاں چلانے میں مصروف تھے۔ شبیر گجر نے دونوں کو سلام کیا، سپاہی نذیر مرزا نے آہستہ آواز سے اور حوالدار افتخار جنجوعہ نے سر ہلا کر جواب دیا۔

حوالدار نے جیسے ہی فون واپس کریڈل پر رکھا تو شبیر گجر کی طرف مسکرا کر دیکھا، بازو آگے بڑھائے اور پھر خود ہی آگے بڑھ کر پرجوش طریقے سے شبیر گجر کو جپھی ڈالی، حال احوال پوچھنے کے بعد حوالدار افتخار جنجوعہ نے شبیر گجر کو آہنی چارپائی پر بٹھایا، اور خود کرسی کھینچ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ شبیر گجر نے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں، پھر سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگا، حوالدار صاحب میری اور زاہد مغل کی چھٹی کی عرضی منظور ہوئی یا نہیں؟ حوالدار افتخار جنجوعہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا، مجھے پتا تھا سویرے سویرے شبیر گجر اپنی کسی غرض سے ہی آیا ہوگا۔

شبیر گجر نے اسی سنجیدہ لہجے میں کہا، حوالدار صاحب آپکو بلکہ اب تو پورے بیس کیمپ اور چوکی والوں کو بھی پتا ہے کہ آج سے ٹھیک ایک ہفتے بعد میری شادی ہے، جس کی تاریخ صوبیدار صاحب نے کپتان صاحب سے پوچھ کر مجھے بتائی تھی، کہ اس تاریخ کو مجھے گھر جانے کی اجازت مل سکتی ہے، اور میں نے اسی روز گھر میں خط اور منی آرڈر بھی بھجوا دیا تھا۔ اب یقیناً گھر میں تیاریاں مکمل ہونگی، سب میرا انتظار کررہے ہوں گے اور آپ لوگوں نے مجھے دو ماہ اگلی چوکی پر تعینات رکھا، کم از کم ایک ہفتہ پہلے میری بدلی بھیجتے تاکہ دو چار روز تازہ پانی سے منہ ہاتھ دھو کر، تبت کریم لگا کر چہرے پر کچھ رونق ہی آجاتی۔

حوالدار افتخار جنجوعہ نے شبیر گجر کی یہ بات سن کر زور دار قہقہہ لگایا اور سپاہی نذیر مرزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شرارتی لہجے میں کہا، او پیارے لانس نائیک گجر جی، کریم تو وہ لگائے جس کو ابھی تک کسی لڑکی نے گھاس تک نہیں ڈالی۔ تمھارے جملہ حقوق تو اب کسی کے نام ہوچکے، اب تم کریم لگاو یا جوتوں والی پالش، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بات پر ایک ساتھ لگنے والے تین زوردار قہقہوں سے چھوٹا سا خیمہ کشت زعفران بن گیا، سپاہی نذیر مرزا نے ٹائپ رائٹر پر چڑھا ہوا کاغذ اتارااور لاکر حوالدار افتخار جنجوعہ کو پکڑا دیا۔

حوالدار افتخار جنجوعہ نے اس ٹائپ شدہ کاغذ کو بغور پڑھنے کے بعد، شبیر گجر کو کہا، مبارک ہو! تمھاری چھٹی کی منظوری کا فون کل رات ہی ہیڈ کوارٹر سے آگیا تھا۔ یہ تمھاری چھٹی کی راہداری کا پروانہ ہے، ابھی صوبیدار صاحب آتے ہیں تو کپتان صاحب سے دستخط کروانے کے بعد تمھارے حوالے کردوں گا۔ تمھیں سرکاری ٹرک کمپی ہیڈ کوارٹر تک لے جائے گا، وہاں سے پینتالیس دن کی چھٹیوں کی پیشگی تنخواہ لیکر، گھر جانے والے ریل پر بیٹھ جانا۔ شبیر گجر نے یہ خبر نما حکم نامہ تحمل سے سنا اور جیسے ہی حوالدار صاحب خاموش ہوئے تو اس نے فوراً پوچھا، حوالدار صاحب زاہد مغل کی چھٹی کا کیا بنا؟

حوالدار افتخار جنجوعہ نے فوراً پیشہ ورانہ سنجیدہ لہجے میں کہا، زاہد مرزا کو کل رات ایمرجنسی میں اگلی چوکی پر بھیج دیا گیا ہے۔ دراصل تمھارے آنے کے بعد وہاں شیلنگ ہوئی تھی، جس سے علمدار شاہ کی ٹانگ کٹ گئی تھی، کپتان صاحب کا حکم تھا کہ تم دونوں میں سے ایک کو وہاں ضرور بھیجا جائے کیونکہ تم دونوں اس چوکی پر نقل و حرکت کا زیادہ تجربہ رکھتے ہو۔ تم سے پہلے زاہد کو جگا کر پوچھا گیا تو وہ فوراً تیار ہوکر روانہ ہوگیا تھا، اب جیسے ہی ریزرو سے کوئی نیا بندہ آیا تو زاہد کو واپس بلا کر اسے چھٹی پر بھجوا دیں گے۔

فوجی زندگی بالخصوص دشمن کی طرف سرحدی چوکیوں پر ایسی باتیں معمول کی باتیں ہی تھیں۔ مگر زاہد مغل تو اس کا ٹریننگ کے دنوں سے ہی جگری یار تھا، دونوں اکٹھے ہی تو اگلی چوکی سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ نو سالوں سے دونوں کی دوستی پوری بٹالین، بلکہ پوری یونٹ میں مشہور تھی اور تو اور دونوں کے گھر والے ایک دوسرے کے گھرانے کی اینٹوں تک سے واقف ہوچکے تھے۔ اکثر باتوں باتوں میں شبیر گجر نے زاہد مغل کو کہا تھا کہ میرے یار اگر تو میری شادی پر نہ آیا تو تیری قسم بیاہ نہیں کروں گا، اور آج بڑے بھائی جیسا دوست ہزاروں فٹ بلندی پر اس سے دور دشمن کی توپوں کی زد میں تھا، اور وہ اپنے ہاتھ میں اپنی چھٹی کا پروانہ پکڑے کھڑا تھا۔

شبیر گجر کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کیا کرے؟ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ، حوالدار افتخار جنجوعہ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا، زاہد نے تمھارے لیے پیغام چھوڑا تھا کہ میرا انتظار کیے بغیر پہلی فرصت میں یہاں سے چلے جانا۔ شبیر گجر سوچ رہا تھا، ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ گہرا دوست بتائے اور ملے بغیر چلا جائے اور اس کا جانا تو ضروری نہیں تھا۔ اگر وہ تھوڑی سی پس و پیش سے کام لیتا تو اس کی جگہ کوئی اور بھی جاسکتا تھا۔ مگر وہ کیوں چلا گیا؟ شبیر گجر کے ذہن میں منفی اور مثبت خیالات نے یلغار کرنا شروع کردی۔

کبھی وہ سوچتا کہ وطن سب سے پہلے ہے اور کبھی اسے خیال آتا، ہو نہ ہو زاہد مغل کی دوستی بس زبانی جمع خرچ تک ہی محدود تھی، اسی لیے فوراً موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمیری شادی پر کیے جانے والے خرچے سے گھبرا کر واپس چوکی پر بھاگ گیا ہے۔ اسے فوج کا وہ مقولہ سچ لگنے لگا جس کے مطابق " فوج کی یاری بس گیٹ تک ہی ہوتی ہے"۔ اسی دوران صوبیدار صاحب آن پہنچے، انہوں نے لانس نائیک شبیر گجر کو چھٹی کی مبارک باد دی اور نیک خواہشات کے ساتھ اسے رخصت کیا۔ شبیر گجر نے بے دلی سے، اپنا بوریا بستر، پروانہِ راہداری، واؤچر وغیرہ لیے اور ٹرک میں بیٹھ کر کمپنی ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوگیا۔

حوالدار افتخار جنجوعہ کی ہدایات کے مطابق اس نے سارے کام نمٹائے، سفری واؤچر کو ٹکٹ میں تبدیل کروایا اور ریل پر سوار ہو گیا۔ اپنی منزل پر پہنچنے تک اسکے ذہن میں زاہد مغل کے چپ چاپ چلے جانے والی بات کچوکے لگاتی رہی۔ شبیر گجر جب گھر پہنچا تو اسکی شادی میں تین دن باقی تھے، ہر شخص فکر مند تھا کہ پتا نہیں چھٹی ملتی بھی ہے یا نہیں؟ جیسے ہی وہ گھر پہنچا تو اسکو دیکھتے ہی سارے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے۔ ماں صدقے واری جارہی تھی، بہنیں اسے چھیڑنے لگی کہ کہیں گجر صاحب چپکے چپکے دلہن کو بیاہ کر گلیشئر تو نہیں لے گئے تھے، جو اپنی شادی پر بھی نہیں آرہے تھے۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq