Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Jahaz Ki Khirki Aur Same Same

Jahaz Ki Khirki Aur Same Same

جہاز کی کھڑکی اور سیم سیم

چند سال پہلے کی بات ہے، ایک فضائی سفر کے دوران۔ جہاز کے اندر میں اپنی نشست تلاش کرتا ہوا، جیسے ہی مطلوبہ سیٹ پر پہنچا تو دیکھا وہاں ایک صاحب پہلے سے براجمان تھے، حلیے سے ککھ پتا نہیں چل رہا تھا، کہاں سے ہیں اور کون سی زبان والے ہیں، میں نے خاموشی سے بورڈنگ کارڈ دکھایا، جس پر سیٹ کا نمبر تھا، فوراً بولے، " او کی آ" میں نے اچھے بچوں کی طرح سمجھتے ہوئے کہا "کچھ نہیں جناب، آپ میری جگہ پر بیٹھے ہیں۔

بس یہی ہے، صاحب کہنے لگے، او یار ایڈا وڈا جہاز اے تو کدھرے وی بہہ جا، مینوں تے الٹیاں دا مسئلہ اے، تینوں کی مسئلہ اے" میں سمجھ گیا تھا، جہاز بلندی پر جانے کے بعد کچھ لوگ دباؤ محسوس کرتے ہیں تو باہر دیکھتے ہوئے ان کا دھیان اندرونی منظر سے ہٹ جائے تو وہ نارمل رہتے ہیں۔ اس سے ان کا ہوائی سفر کا فوبیا کم ہوتا ہے، بہرحال میں نے پوچھا آپ کی سیٹ کون سی ہے، کہنے لگے یہ درمیان والی، تین تین نشستوں والا بڑا جہاز تھا، میں خاموشی سے درمیان والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد میری داہنی طرف ایک سوٹڈ بوٹڈ خان صاحب نے جگہ سنبھال لی، اور میں دونوں کے نرغے میں دبک کر بیٹھ گیا، نہ میں نے سلام دعا میں پہل کی اور نہ مجھے یرغمال بنانے والوں نے۔ جہاز اڑنے سے پہلے سیٹ بیلٹ پہننے کے احکامات نشر ہونے لگے، ایک ترچھی ٹوپی والی حسینہ نے سب کے سامنے حفاظتی بیلٹ باندھ اور کھول کر دکھایا تو اس کے بعد پورے جہاز سے ٹک پٹک کی آوازیں ابھرنے لگیں۔

میں نے بھی بیلٹ بند کرنا چاہا تو کھڑکی والے موصوف کہنے لگے یار مجھے بھی بتانا یہ کیسے بند ہوگا؟ میں نے جب اس کا بیلٹ دیکھا تو ایک بار چکرا کر رہ گیا دونوں سرے ایک جیسے تھے، اچانک دماغ نے کلک کیا اور سمجھ آگئی موصوف میری طرف والا بیلٹ بھی لپیٹے ہوئے تھے، میں نے ادب سے کہا " جناب یہ میرا بیلٹ ہے" تو فوراً بگڑ گئے اور کہنے لگے کیا جہاز کی ہر چیز تمھاری ہے؟

ساتھ والے خان صاحب سے مدد کی درخواست کی انہوں نے سمجھا بجھا کر اسے بیلٹ میں باندھا اور میں سکون کا سانس لینے ہی والا تھا کہ جہاز رن وے پر سرپٹ دوڑنے لگا اور ساتھ ہی کھڑکی والے صاحب نے اپنے ہاتھ پاؤں ادھر ادھر مارنے شروع کردیئے، میں نے سوچا اسے الٹی کے علاوہ الٹی سیدھی حرکتیں کرنے کا بھی مسئلہ ہے شاید۔وہ دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتا مٹھیاں بھینچتا، گردن کو وائبریشن پر لگاتا اور بازو نیچے کر لیتا۔

جب سامری جادوگر کی طرح اس نے چھ سات بار یہی حرکت دہرائی تو میں جو بظاہر لاتعلق نظر آنے کی کوشش کررہا تھا، رہا نہ گیا اور کہا "بھائی کوئی مرگی کا مسئلہ ہے تو بتاؤ میں کوئی لتر سونگھانے کا بندوبست کروں " اتنی دیر میں جہاز کی چونچ فضا میں بلند اور بدستور بلند ہونے لگی، بھینچے ہوئے دانتوں کے ساتھ کہنے لگا " او یار ایدھے پکڑن آلے پائپ شائپ کتھے نے" میں نے دوبارہ پوچھا کیا کہا؟

کہنے لگا او بھائی اس جہاز میں سہارے کے لیے کوئی پکڑنے والا پائپ نہیں کیا؟ مجھے ڈر ہے سیٹ سے نیچے نہ گر جاؤں، یہ سن اور دیکھ کر ہنسنے اور رونے کا مکس دل کررہا تھا، مخلوط جذبات پر بمشکل قابو پاتے ہوئے ادب سے کہا " جناب یہ ہوائی جہاز ہے کوئی راکٹ بس نہیں جہاں بس کے ساتھ سواریاں بھی لہراتی اور بل کھاتی ہیں " موصوف کہنے لگے " او نہ کر یار، ایدیاں سیٹاں تے بلکل بس ورگیاں ای نے۔

جہاز آرام سے اڑنے لگا۔ لیکن مجھے اس مسافر کی باتوں سے بدستور جھٹکے لگ رہے تھے۔اتنی دیر میں ادھر سے خان صاحب نے لقمہ دیا " اوئے خوچہ یہ زندگی میں پہلی بار کیری ڈبے سے نکل کر سیدھا جہاز میں آ بیٹھا ہے، اسے کہو بندے کے بچے جیسا بیٹھو" اس کی بجائے میں مشکل سے بیٹھا ہوا آرام سے بیٹھ گیا، جہاز متوازن ہوگیا تو مسافروں نے سیٹ بیلٹ کھولنے شروع کر دیئے۔

میں نے کتاب نکالی اور مطالعہ کرنے لگا۔ لیکن توجہ تقسیم تھی کتاب میں مرکوز ہی نہیں ہو رہی تھی، ایک طرف سے نسوار کا بھبکا نتھنوں سے ٹکرایا تو دوسری طرف سے بیلٹ کھولنے کے چکر میں کھڑکی والے صاحب اُسے بے تکا کھینچ رہے تھے، جس سے بار بار کہنی میری وکھی میں چبھونے لگے۔کھانے کا وقت ہوا تو فلائٹ اسٹیورڈ نے آکر انگریزی میں پوچھا کیا کھاؤ گے، گوشت، سبزی، چاول، خان صاحب جو انگریزی فلموں کے شوقین لگ رہے تھے۔

انہوں نے گوشت اور میں نے چاول اور سبزی کا کہا، جب کھڑکی والے موصوف کی باری آئی تو ایک دو بار ادھر اُدھر دیکھا پھر ہماری طرف اشارہ کرکے فوراً کہا "سیم سیم" اسٹیورڈ بھی ہلکا سا مسکرایا، اور کھانے کے پیکٹ تقسیم کرکے چلا گیا، میں اور خان صاحب کھانے لگے تو کھڑکی والے صاحب کھانے کی بجائے پہلے ہمیں دیکھنے لگے، پھر چوری آنکھ سے ہمیں دیکھتے ہوئے کھانا شروع ہی کیا تو دہی کا کپ ہاتھ میں پکڑا ادھر ادھر دیکھ کر ایک جھٹکے سے کھول دیا تو اندر سے دہی بھی گھبرایا ہوا تھا۔

شاید اس طرح اچھل کر نکلا کہ اگلی نشستوں، میرے کپڑوں، اور خود موصوف کے کپڑوں پر پھیل گیا، بجائے شرمندہ ہونے کے الٹا مجھے کہنا لگا، اوئے پڑھاکو تم مجھے بتا نہیں سکتے تھے کہ اسے کس طرح کھولنا ہے، میں نے بے حد معذرت کے ساتھ کہا آئندہ خیال رکھوں گا، ایرہوسٹس کو بلا کر اس سے گیلے رومال (وَیٹ وائپس) لئے اور گزارہ لائق صفائی کی، کھانے کے بعد جب جہاز کا عملہ برتن وغیرہ سمیٹ کر لے گیا۔

تو اس کے بعد مشروبات کا دور شروع ہوا تو میں نے بلیک کافی مانگی تو جناب نے اپنی باری پر دوبارہ "سیم سیم" کا آرڈر کر دیا، میں بیرونی تلخی کو کم کرنے کے لیے چینی کے بغیر کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگا تو جناب نے بھی کاپی پیسٹ کرتے ہوئے "سیم سیم" ہی کیا، گھونٹ بھرا اور فوراً کسی جنگلی گھوڑے کی طرح پُھررررر کیا جس سے ایک بار پھر "کافی افشانی" نے ماحول اور کپڑوں کو گندہ کردیا۔

میں حتیٰ المکاں مروت اور خوشدلی سے کام لے رہا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر مجھے اب ابکائیاں آنے لگیں، موصوف نے بغیر معذرت یا شرمندگی کے پانی کی بوتل کو منہ لگایا ایک گھونٹ بھرا اور منہ ہی منہ میں کلی کرنے لگا، اس کے بعد دونوں ہاتھ جہاز کی کھڑکی پر جما کر اسے دائیں بائیں، اوپر نیچے دھکیلنے لگا، مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا جناب یہ آپ کیا کررہے ہیں، موصوف منہ میں کلی کو نگلتے ہوئے کہنے لگے اوئے نظر نہیں آتا کھانے کے بعد کلی کررہا ہوں۔

اور کیا کررہا ہوں، میں جناب کے انداز اور آداب سے بے حد متاثر ہوا اور کہا جناب آپ غلط سمجھے ہیں۔ میں پوچھ رہا ہوں یہ کھڑکی پر کیوں زور آزمائی کررہے ہیں، موصوف الٹا مجھے کہنے لگے یار مجھے تم کوئی بالکل جاہل شخص نظر آتے ہو، اتنا بھی نہیں پتا کلی کر رہا تھا، اب شیشہ کھول کر باہر تھوکوں گا، میں تو اپنی عزت افزائی اور موصوف کی عقل و دانش پر انگشت بدنداں رہ گیا۔

جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے کہا جناب یہ جہاز ہے۔ اس کی کھڑکی نہیں کھلتی اگر کلی کرنی ہے یا ہاتھ منہ دھونا ہے تو واش روم جاؤ، موصوف نے پرانے جنریٹر کی ملتی جلتی آواز میں ایک شور دار اور عجیب و غریب قہقہہ لگایا، جس سے اہل جہاز کی گردنیں توپوں کی طرح یکدم ہماری طرف گھومیں، موصوف کہنے لگے اوئے میں پینڈو ہوں پر اتنا بھی نہیں جتنا تم نے سمجھ لیا ہے، زیادہ رنگ بازی نہ کرو، جہاز میں واش روم کدھر سے آگئے؟

مجھے بیوقوف مت بناؤ،۔ تم چاہتے ہو میں یہاں سے اٹھوں اور تم کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کرلو۔مجھے بعد میں سمجھ آئی جناب الٹیاں بھی شیشہ کھول کر کرنا چاہتے تھے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra