Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (2)
حریم کبریا کے دیار میں (2)
عام آدمی کی ساری زندگی پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کی ناکام کوششوں میں بسر ہوجاتی ہے، میرے والدین دیارِ حرم میں سجدہ کی خواہش لئے ضعیف العمر ہوچکے تھے، بارہا اشاروں کنایوں میں اپنی خواہش کا اظہار کرچکے تھے، مگر اس وقت مالی حالات اور ذمہ داریاں کچھ ایسی تھی کہ ہاتھ کشادہ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، ایسی کوئی سبیل نہیں بن رہی تھی جس سے کسی طرح والدین، بیت العتیق کی جانب سفر کرسکتے، کبھی مالی حالات تو کبھی خاندانی مسائل، ہر بار کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آتی رہی۔
ایک دن بیٹھے بٹھائے، پتا نہیں من میں کیا سمایا؟ والدین کو پاسپورٹ بنوانے کے لئے کہہ دیا، جیسے ہی پاسپورٹ بنے تو، کراچی میں ٹورازم ایجنسی چلانے والے دوست جس کے ساتھ کبھی پارٹنر شپ رہی تھی، اسے پاسپورٹ بجھوا دیے کہ بھائی آگے کا کام تمھارے ذمہ ہے، پھر پتا ہی نہیں چلا، اور ایک دن عمرے کے ویزے اور ٹکٹ وغیرہ تیار ہوکر گھر پہنچ گئے۔ والدین حرمین الشریفین کی جانب عازم سفر ہوئے تو اپنے پاس جو مزید بچت تھی وہ ان کے سفری اخراجات کے لیے انہیں بھجوا دی۔
وہ بار بار یہی پوچھتے رہے کہ پتر تو بھی وہاں آرہا ہے نا؟ اور میں کہتا"جی آپ وہاں پہنچیں تو میں بھی ان شاءاللہ وہاں ہی ہوں گا" میں اس وقت بحرین میں ہی مقیم تھا، کام کاج کچھ ایسے تھے کہ فوری طور پر سفر کرنے کے قابل نہیں تھا۔ والدین سعودی عرب پہنچ گئے، وہاں جاکر انہوں نے جو دعا مانگی تو اس کی تاثیر سے میرے سفر کی تمام رکاوٹیں ختم ہوگئیں، مالی وسائل کا بندوبست بھی ہوگیا اور میں بھی وہاں ان سے جاملا، وہ میرا حرمین شریفین کی جانب پہلا سفر تھا۔
آپ آگے جو تفصیل سے پڑھنے جارہے ہیں، یہ میرے دوسرے سفر کے حالات و واقعات ہیں، جنہیں قلمبند کرکے آپ کے سامنے پیش کرنے کی کاوش ہے، کہیں پر اگر گنجائش ہوئی تو پہلے سفر کے چند واقعات بھی شاملِ تحریر ہوں گے۔
بحرین میں ہی میرے آنگن میں، منتوں مرادوں کے بعد بخیر و عافیت میری پہلی اولاد، میری بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی، بیگم صاحبہ کا اصرار تھا کہ اب جلد از جلد عمرہ کے سفر پر جایا جائے اور رب کے گھر پہنچ کر اس کی رحمت کا شکر ادا کیا جائے۔ جہاں میری رہائش تھی، وہاں جو لوگ حج اور عمرے کا کام کرتے تھے، ان سے معلومات لیں تو پتا چلا کہ، چند دنوں بعد حرمین شریفین اور مقدس مقامات کی زیارات کے لیے ایک بڑا اور خصوصی قافلہ روانہ ہونے والا ہے، یہ قافلہ میری رہائش سے دور دراز کے علاقے سے نکلنا تھا۔
میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، اپنی اور گھر والوں کی سفری دستاویزات انہیں بھجوا دیں، عمرے کے لیے میڈیکل چیک اپ کروا کر حفاظتی ٹیکے لگوا لیے، دو چار دنوں میں بحرین حکومت سے سفری اجازت نامہ اور سعودی حکومت سے ویزہ مل گیا تھا۔ تیاریاں شروع کردیں، احرام میرے پاس میرے پہلے سفر کا پڑا ہوا تھا، اسے ہی دھلوا کر پیک کرلیا، دیگر ضرورت کا ہلکا پھلکا سامان ہی ساتھ رکھا، کیونکہ پہلے تجربے سے یہ سیکھا تھا کہ جتنا سفری سامان کم ہوگا، وہاں رہنے اور عمرہ ادائیگی میں اتنی ہی سہولت زیادہ ہوگی۔
ویسے بھی بحرین اور سعودی مارکیٹوں کا کوئی خاص فرق نہیں تھا، مجھے فکر تھی تو نوزائیدہ، شیر خوار بچی کی، کیونکہ سخت گرمیوں کا موسم، اور بس کے ذریعے چھبیس، ستائیس گھنٹوں کا تھکا دینے والا سفر، ایسے میں سب معاملات کو سنبھالنا مشکل محسوس ہورہا تھا، مگر میری ہمت میری بیگم نے بندھا اور بڑھا رکھی تھی، زچگی آپریشن کے ذریعے ہوئی تھی اور ہسپتال سے لیکر گھر تک سارے معاملات کو سنبھالنے کے لیے ہم صرف دو میاں بیوی ہی تھے، باقی پردیس میں کوئی رشتہ دار یا شناسا نہیں تھا، ایسے میں بیمار عورت کا خود کو اور بچی کو سنبھالنا، پھر خود ہی کہنا کہ ہم نے بس کے ذریعے ہی سفر کرنا ہے، میرے لیے حیرت انگیز تھا۔
بحرین سینکڑوں جزیروں پر مشتمل ایک جزیرائی ملک ہے، تمام ایسے جزائر جو آباد ہیں، وہ سمندر میں بنے مضبوط آہنی معلق پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اسی طرح کے ایک جزیرے سے بذریعہ بس بحرین سعودی بارڈر پر پہنچنا تھا، جس کیلئے عمرہ سروس کی جانب سے فجر کی نماز پڑھ کر وہاں اکٹھ کا حکم نامہ ملا تھا، وہاں پہنچے تو ایک جیسی پانچ جہازی قدوقامت کی بسیں مسافروں کیلئے در وا کیے ہوئے تیار کھڑی تھیں، زمین پر سے اپنی نشست پر جانے کیلئے اوپر کی جانب تقریباً 6 سیڑھیوں کو عبور کرنا تھا۔
بسوں کے دروازوں پر مسافروں کے نام والی فہرستیں اور ان کے آگے نشستوں کے نمبر بالترتيب درج تھے، اپنا نام اور نشست نمبر دیکھ کر اپنا سامان بس میں بنے مخصوص خانوں میں لوڈ کیا، اپنی سفری دستاویزات وصول کرنے اور بس میں سوار ہونے کے تقریباً تھوڑی ہی دیر بعد قافلہ منزل کی جانب رواں دواں ہوگیا تھا۔ پہلے بلاوے میں والدین وہاں تھے تو ان کی دعائیں مجھے بے سرو سامانی کے باوجود کھینچ کر وہاں لے گئی تھیں، دوسری مرتبہ میری 6 ماہ کی شیر خوار ننھی منی پری، شریک حیات اور والدین کی دعائیں میرے شریک سفر تھیں۔
یہاں سے حجاز مقدس (سعودی عرب) کے بارڈر تک 25 کلومیٹر طویل پل بنا ہوا ہے جسے " جسر الملک فهد" یا کنگ فہد کازوے" کہا جاتا ہے۔ اس پل کا زیادہ حصہ سمندر کے اندر ہے، یہ بحرین کے علاقے" جسرہ" سے شروع ہوکر سعودی عرب کے علاقے" خبار" میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی عجوبوں سے کم نہیں پل کے ساتھ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں، بیگم صاحبہ کے مشورے سے سفر بس کے ذریعے کرنے پر اتفاق ہوا تھا، جو ابھی تک درست محسوس ہورہا تھا، بحرینی امیگریشن، کسٹم اور ٹول پلازہ سے ہوتے ہوئے ہم اب اُسی پل پر گامزن تھے۔
بس میں 50 مسافروں کی گنجائش تھی، کارواں کی شکل میں سفر کرنے کی وجہ سے، ساری نشستیں پُر تھیں۔ بس کے پائلٹ حضرات جو ہمارے اس بابرکت سفر کے ناخدا تھے، شکل سے بڑے سنجیدہ اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے تھے، لیکن ہمیں ہر پل یوں لگ رہا تھا جیسے پوری ٹریفک میں سے ہماری لگژ ری بس سب سے سست رفتار ہے، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اس 26 گھنٹوں کے طویل سفر کو پلک جھپکتے گزار دیں؟ بالآخر رینگتے رینگتے اور جزیروں کو دیکھتے ہوئے بحرین کی حدود سے نکل کر حجاز مقدس کے بارڈر اور ٹول پلازہ پر پہنچ گئے تو، وہاں اب سفر کا مختصر سا وقفہ تھا۔
پورے قافلے اور سامان کی جانچ پڑتال کے بعد، جب ہر طرح کی کلیئرنس مل جائے تب ہی یہاں سے ہم سعودی عرب کی حدود میں داخل ہونے کے مجاز تھے، یہاں سعودی عملہ، بحرینی عملے کی بہ نسبت دیکھنے میں سخت گیر اور چال ڈھال سے سست دکھائی دے رہا تھا، پھر بھی دونوں ممالک کے عملے میں ایک قدر مشترک تھی، بے پناہ رش کے باوجود، دونوں کم و بیش دیکھنے کی حد تک خوش اخلاق اور پیشہ ورانہ امور میں ماہر تھے، فضول انتظار یا خجل خوار نہیں کررہے تھے۔
یہاں بھی تقریباً ایک جیسے معاملات تھے، سعودی عرب میں داخلے کا اجازت نامہ، سامان کی تلاشی، دیگر تمام چیک ان کے بعد، جب امیگریشن کاؤنٹر نے ٹھپہ لگانے کے بعد، مجھے میرا، بیگم اور بیٹی کا پاسپورٹ تھماتے ہوئے مسکرا کر کہا، "مبروک یا حجی" تو یوں محسوس ہوا جیسے فقط یہی خوشخبری سننے کیلئے سماعتوں کا بیقرار وجود برقر ار تھا۔ حریم کبریا کی مہمان نوازی اور حرمین الشریفین میں حضوری کا پروانہ مل گیا تھا۔