Colosseum
کولوزیم
روم کے شہنشاہ نیرو نے جب نیا کولوزیم Colosseum (کھیل کا میدان جس میں گلیڈی ایٹرز کے قتل جیسے کھیل منعقد ہوتے تھے، جیسا کہ غلاموں کے درمیان لڑائی، یا انسانوں اور شکاری جانوروں کے درمیان لڑائی) تعمیر کروانا چاہا تو اس کے من میں خیال آیا کہ اس تھیٹر کے میدان میں بچھانے کے لیے ریت مصر کے صحراؤں سے لائی جائے، شہنشاہ نے سونے سے لدے ہوئے بحری جہازوں کا قافلہ مصر سے ریت لانے کے لیے روانہ کردیا۔
جب یہ بحری قافلہ سمندر میں ہی تھا، تو رومن عوام نے انقلاب کی لڑائی شروع کر دی کیونکہ اسی وقت روم میں ایک بڑا قحط رونما ہوچکا تھا۔ عوام کے پاس کھانے کے لیے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں تھا، بھوک کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر بغاوت شروع کردی اور شہروں کو تباہ کرنا شروع کردیا۔
جب بحری جہاز مصر پہنچے تو قافلے کے کپتان کو علم ہوا کہ پیچھے تو روم میں انقلاب برپا ہوچکا ہے، تو اس نے مصر کے رومی گورنر سے پوچھا کہ اسے اب کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ روم کو بچانے کے لیے اس رقم سے گیہوں خریدے، یا وہی کرے جو شہنشاہ نیرو نے حکم دیا تھا اور سونے کے بدلے ریت لیکر واپس جائے؟
گورنر اور رومن شہنشاہیت کے دیگر ارکان اس سوال پر حیران رہ گئے، وہ اتنے بڑے عہدے کے افسر کی طرف سے شہنشاہ کے حکم کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے وہی کیا جو شہنشاہ نے ان کے نام فرمان ارسال کیا تھا، انہوں نے جتنی جلدی ممکن ہو سکا، بحری جہازوں سے سونا اتروایا اور ریت سے لاد کر روم کی طرف واپس روانہ کردیا۔
انقلاب میں مصروف عوام کے لیے خوفناک بات یہ ہوئی کہ جب وہ ریت روم پہنچ گئی تو کولوزیم میں ریت بچھا کر شہنشاہ نے اعلانات کروا دیے کہ نئے کولوزیم کے افتتاح کے موقع پر کئی ماہ سے رکے ہوئے گلیڈی ایٹر کے کھیل دوبارہ شروع کروائے جاریے ہیں، تو لوگ جوق در جوق کولوزیم میں جمع ہونا شروع ہوگئے، کھیل کے دوران جب انسانی سرخ خون مصر کی سفید ریت پر گرنا شروع ہوا تو لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے اپنے کرب اور گندم کے قحط کو بھول گئے، یہ ان کا پسندیدہ کھیل تھا اس لیے وہ پرسکون ہوکر کھیل دیکھنے میں مصروف ہوگئے، اور یوں انقلاب ختم ہوگیا۔
لَہْو و لَعَبْ میں ڈوب کر انسانی مقصد حیات سے غافل ہوجانا کوئی آج کی بات نہیں ہے، صدیوں سے یہ کھیل اس شدت سے جاری ہے کہ خدا کو الہامی کتاب میں واضح اعلان کرنا پڑا کہ دنیاوی زندگی محض کھیل تماشہ ہے۔
مصری مفکر و ادیب مصطفیٰ محمود نے کہا تھا، نچلے درجے کے ممالک کی حکومتوں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کا خاتمہ ایک معمول کی بات ہے۔