Blue Blockage Ainak
بلیو بلاکج عینک
کیا آپ کمپیوٹر اور موبائل فونز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں؟ کیا آپ کا سکرین ٹائم دوسروں کی نسبت زیادہ ہے؟ اگر آپ کو اور آپ کے بچوں کو ڈیجیٹل سکرین کی روشنیوں سے دور رکھنا ناممکن ہے تو یہ آرٹیکل آپ کے لیے ہے۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک انٹرپرینور کے کاروباری تخیل سے۔
ناسا کے خلا بازوں کو خلا میں جاتے ہوئے سب سے زیادہ جس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا وہ سورج کی الٹرا وائلٹ اور دیگر نقصان دہ شعاعوں کا زمین کے مقابلے میں زیادہ شدت سے آنکھوں کو چبھنا اور بصارت کو متاثر کرنا تھا۔ خلابازوں کی ایک ٹیم نے جب ناسا کے ہیڈکواٹر کو اس مشکل سے آگاہ کیا تو، وہاں بیٹھے ماہرین نے اس پر سوچ بچار شروع کردی۔
جس کے نتیجے میں وہ ایسے شیشے بنوانے میں کامیاب ہوگئے جنہیں عینک میں لگا کر پہننے سے مختلف قسم کی نقصان دہ شعاعوں سے بچا جاسکتا تھا۔ ابتدائی طور پر دو عینکیں تیار کی گئی جن پر اتنی زیادہ لاگت آئی، کہ چند عینکوں کے بعد مزید عینکیں بنانے کا فیصلہ مؤخر کر دیا گیا۔
اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جوزف شوگر مین کیلیفورنیا کا رہائشی، جو پیشے کے اعتبار سے مارکیٹنگ انٹرپرینور تھا، وہ اپنے چند پراجیکٹس کے لیے درکار سرمایے کے حصول کے لیے فارغ اوقات میں ٹیکسی چلانے کا کام کرتا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ اس کی گاڑی میں ایسی سواری سوار ہوئی، جس کا تعلق ناسا کے ان خلابازوں میں سے تھا، جن کے پاس وہ مخصوص عینک تھی، جسے پہن کر سورج اور دیگر نقصان دہ شعاعوں سے بچا جاسکتا تھا۔
جوزف شوگر مین جس سڑک پر گاڑی چلا رہا تھا، وہاں سورج بالکل عین آنکھوں کے سامنے تھا، شوگر مین کے لیے چندھیائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ گاڑی کو چلانا دشوار ہوتا جارہا تھا، اس کی گاڑی میں بیٹھے مسافر نے جب یہ صورت حال دیکھی، تو اپنا خلابازوں والا مخصوص چشمہ نکال کر جوزف کے حوالے کیا اور کہا، یہ عینک پہن کر گاڑی چلاؤ، جوزف نے جب وہ چشمہ لگایا تو حیرت سے دنگ رہ گیا۔
اسے ناصرف سامنے شیشے کے پار سڑک اور اردگرد کا منظر بغیر رکاوٹ کے بالکل صاف شفاف نظر آرہا تھا، بلکہ سورج کی روشنی بھی اس کے دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بن رہی تھی، جوزف مارکیٹنگ کا ذہن رکھنے والا انٹرپرینور تھا، اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ مستقبل کی ایسی شاندار پروڈکٹ ہے جس سے لوگ ابھی ناواقف ہیں، اس نے فوراً مسافر سے کہا کہ میں یہ چشمہ زیادہ تعداد میں خریدنا چاہتا ہوں۔
یہ سن کر مسافر مسکراتے ہوئے کہنے لگا، اس ایک چشمے کی قیمت تمھاری گاڑی سے کئی گنا زیادہ ہے، اور یہ چشمہ نہ ہی زیادہ تعداد میں ہے اور نہ ہی عوام کے لیے دستیاب ہے۔ جوزف یہ بات سن کر وقتی طور پر خاموش ہوگیا، اس نے مسافر کو اس کی منزل پر اتارا، اور خود شیشہ سازی کی فیکٹریوں میں ویسا ہی عدسہ سستے داموں بنوانے کے لیے چلا گیا۔
فیکٹریوں اور کمپنیوں کی خاک چھانتے ہوئے، اسے ایک ایسی فیکٹری مل ہی گئی جو تجرباتی طور پر ویسے ہی عدسے ارزاں نرخوں پر بنا کر دینے پر تیار ہوگئی، جیسے ہی عدسے تیار ہوکر چشمے میں لگے، جوزف نے ملک بھر کے ٹیلیویژن چینلز کے ذریعے اس پروڈکٹ کی تشہیر شروع کردی، جس کا نام " بلیو بلاکج" عینک رکھا گیا۔ ایک ایسا چشمہ جسے ہر کوئی ہر وقت پہن سکتا تھا، اور پہن کر مختلف قسم کی قدرتی و مصنوعی نقصان دہ شعاعوں سے بچا جاسکتا تھا۔
یہ ایک اچھوتا آئیڈیا تھا، جس نے ہر خاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، یوں جوزف شوگر مین کی کمپنی نے 20 ملین عینکیں فروخت کردیں۔ الٹرا وائلٹ / گاما شعاعوں کے علاوہ، ہر قسم کی سکرینوں اور مصنوعی روشنیوں سے ایک شعاع خارج ہوتی ہے جسے بلیو لائٹ یا نیلی روشنی کا نام دیا جاتا ہے، یہ روشنی جہاں بینائی کو متاثر کرتی ہے وہاں ہی جسم میں میلاٹونن ہارمون کیمیائی مادہ بننے کا عمل متاثر ہوکر رک جاتا ہے، جس سے ہمارے جسم کا سونے جاگنے والا شیڈول درہم برہم ہوجاتا ہے۔
اگر آپ موبائل، کمپیوٹر اور ٹیلیویژن وغیرہ کی سکرین دیکھنے میں زیادہ وقت استعمال کرتے ہیں، چاہے آپ کی بینائی کمزور ہے یا 6/6 ہے، ہر صورت میں تو آپ کے لیے بلیو بلاکج عدسے والا چشمہ پہننا بے حد ضروری ہے۔