Awara Hoon Ya Gardish Mein Hoon, Asman Ka Tara Hoon
آوارہ ہوں یا گردش میں ہوں، آسمان کا تارہ ہوں
باپ جب اپنے چھوٹے بچوں کو میلوں ٹھیلوں پر لیکر جاتا ہے تو انگلی تھامے یا کندھے پر بٹھائے انہیں میلے میں ہر جگہ خود دکھاتا ہے اور انہیں بچھڑنے نہیں دیتا، دیکھو وہ مداری والا کرتب کر رہا ہے، وہاں بندر اور ریچھ کا تماشا ہے، وہ دیکھو وہاں پہلوانوں کا اکھاڑا ہے، کتوں کی لڑائی سے لیکر سائیکل والے کے کرتب تک انہیں خود دکھاتا ہے، آنے جانے کے رستے ازبر کرواتا ہے، میلے سے سستی اور معیاری خریداری کرنی ہو تو کیسے ہو گی؟
بہترین کھانا کہاں سے ملے گا، وہ دیکھو اس طرف گرم جلیبیاں اور پکوڑے ہیں، میلے میں بھانت بھانت کے لوگ اور بھانت بھانت کی بولیوں کے درمیان اپنی الگ پہچان اور اپنا اخلاق بلند کیسے رکھنا ہے؟ وہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ بچے بڑے بھی ہو جائیں تو میلے کو باپ کی نظر سے دیکھنا نہیں چھوڑتے۔
"میں ہوں جہاں گرد" جناب فرخ سہیل گوئندی صاحب کی تازہ ترین تصنیف، دنیا کے رنگا رنگ سجے میلے کی سیاحت کے متعلق ایک سفرنامہ، ایک جہاں نامہ ہے، جس میں "میں ہوں جہاں گرد" آپ کو منفرد زاویے سے دنیا دیکھنا اور پھر دنیا میں کیا دیکھنا چاہیے؟ بتاتا ہے، ایک سیاح جب سیاحتی مقامات کو اپنی خاص متلاشی اور جوشیلی نظروں سے دیکھتا ہے تو پھر اس کے من میں یہ خواہش ضرور جنم لیتی ہے کہ میں نے جو سماں دیکھا ہے اسے اوروں کو بھی دکھلانا ہے۔
گوئندی صاحب بنیادی طور پر کمالسٹ اور بھٹو ازم کے شیدائی سوشلسٹ ہیں، درحقیقت ان کا تعلق سماج کے اس دانشور طبقے سے ہے جو معاشرے کے حقیقی نباض ہوتے ہیں، میرا ان سے تعارف اور تعلق تو "میں ہوں فرخ سہیل گوئندی" و دیگر کئی حوالوں سے ہے، مگر اس وقت بات ان کی کتاب اور ان کی جہاں گردی کے متعلق ہے، یہ کتاب جتنی ضخیم ہے اس حساب سے اسے سفرناموں کی مقدس کتاب کہنا درست ہے۔
بلکہ یہ ان کی جہاں گردی کا انسائیکلو پیڈیا ہے، جس میں پڑھنے کے لیے بے شمار مواد ہے، اس کتاب میں ان کا، لہور سے شروع ہو کر لہور پر ختم ہوتا سفر، بلوچستان، ایران، ترکی بلغاریہ اور نجانے کہاں کہاں اور کس کس دیس تک پھیلا ہوا ہے، سفر کیسے کرتے ہیں، سیاح کے لیے کیا چیز اہمیت کی حامل ہے، حقیقی تاریخ کا سیاحت میں کیا کردار ہے، سیاحت کیوں کی جاتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ کے متعلق مفصّل معلومات بلکہ آزمودہ مجرب نسخے تک رقم ہیں۔
اس کتاب سے ایک اقتباس آپ کے ذوقِ سیاحت کی نذر۔ "گوئندی صاحب لکھتے ہیں کہ، سیاحت میں ایک سبق میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب آپ کسی منزل کی طرف جا رہے ہوں اور راستے میں کوئی اور دلچسپ مقام آ جائے اور آپ کے پاس وقت کی گنجائش بھی ہو، اور آپ یہ فیصلہ کرکے کہ اس جگہ کو بعد میں دیکھ لوں گا، اسے چھوڑ دیں تو یہ عمل تاعمر افسوس کا سبب بنتا ہے، جیسے کسی جگہ کو بعد میں دیکھنے کا فیصلہ ندامت کا سبب بنتا ہے۔
اسی طرح آپ کسی سے بات کر کے کسی چیز کو جاننے کا تجسس رکھتے ہیں اور شرما یا جھجک جائیں اور بات نہ کریں یہ بھی ساری عمر افسوس کی طرح دماغ کے ایک خانے پڑا تنگ کرتا رہتا ہے"۔ جی تو یہی چاہتا ہے کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھا جائے، مگر ٹھہر ٹھہر کر جرعہ جرعہ نوش کرنے میں جو سواد ہے وہ غٹاغٹ پینے میں کہاں؟ اس لیے مارچ میں خریدی گئی کتاب کا سفر مئی میں اختتام پذیر ہوا۔
اس کتاب کے متعلق بے شمار باتیں اور احساسات ہیں جو فیس بک پوسٹ کی تنگی داماں کے سبب ان کہی رہ گئی ہیں ورنہ 786 صفحات پر کم از کم 86 صفحات کا تبصرہ تو بنتا تھا۔ کتاب کے 786 صفحات ہیں، صفحات کی یہ تعداد دانستہ ہے یا غیر دانستہ اس بابت لا علم ہوں، سفرنامہ مختلف مقامات کی مختلف اوقات میں کھینچی گئی رنگین اور نادر تصاویر سے مزین ہے، ہر تصویر کے ساتھ مختصر تعارف، نمبر اور نمبر کے حساب سے معلومات بھی کتاب میں شامل ہیں۔
کاغذ معیاری ہے، الفاظ کا فونٹ بھی بہترین ہے، طویل سفرنامہ پڑھتے ہوئے کہیں بھی، دقت، بوریت یا اکتاہٹ نہیں ہوتی، کتاب کے استر اور دیگر اندرونی صفحات پر جاذب نظر پینٹنگز ہیں، جن میں جبل نوح، جودی پہاڑ یا کوہ ارارت کی بھی شامل ہے۔ کتاب کے سرورق پر کتاب اور مصنف کا نام تحریر ہے، سرورق تصویر صوفیہ، بلغاریہ، لارگو کی عمارت کی ہے جو بلاشبہ حسین اور سوشلسٹ کے لیے سرخ جنت کا درجہ رکھتی ہے۔
شاید گوئندی صاحب کے نزدیک یہ عمارت خاص مقام رکھتی ہو، مگر میرے خیال میں ٹائٹل پر چھپنے کے بعد نہ تو جاذب نظر رہی ہے اور نہ ہی کلر اسکیم دل کو لبھانے والی ہے، امید ہے اگلے ایڈیشن میں اس پر نظر ثانی ہو گی۔ کتاب پر درج قیمت 1380 روپے اور اس کا ناشر و پبلشر جمہوری پبلشنگ ہاؤس ہے، جو گوئندی صاحب کا اپنا ادارہ ہے۔ کتاب پڑھنے والے ان سے رابطہ کرکے ڈسکاؤنٹ حاصل کر سکتے ہیں، ویسے جتنے صفحات اور کاغذ کی کوالٹی ہے اس حساب سے قیمت مناسب ہے۔