Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Arslan Mushtaq Se Mulaqat

Arslan Mushtaq Se Mulaqat

ارسلان مشتاق سے ملاقات

سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے، دارالحکومت کی فضاؤں میں عجیب سا تناؤ تھا، سبزے سے ڈھکی اور پھولوں سے لدی روشوں سے بے نیاز انسانی اور مشینی عجیب بے ہنگم قسم کا ہجوم، اک دوجے کی مخالف سمتوں میں یوں بگٹٹ بھاگے جارہا تھا جیسے کوئی عفریت ان کے تعاقب میں ہو۔ ایرکنڈیشن چلنے کی وجہ سے باہر کی بہ نسبت، گاڑی کے اندر خنکی تھی، ٹھنڈے شیشے کے ساتھ گال چپکا کر میں کسی حیران بچے کی مانند شیشے کے پار کی دنیا دیکھ رہا تھا۔

سست روی سے چلنے والی ٹریفک میں لگاتار بجتے ہارنوں کا شور، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں گاڑیوں کی آڑھی ترچھی قطاروں کے درمیان سے لپکے خواجہ سراؤں کے سوالی چہروں کے ساتھ شیشوں کو بجاتے سوالی ہاتھ، کم سن میلے کچیلے بچوں کو گھسیٹتی ہوئی فقیرنیاں، خوانچہ فروشوں کے کندھوں پر جھولتی ہوئی ترازو نما ٹوکریاں، اور پھر تاحد نگاہ رینگتی ہوئی گاڑیوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ جن دوستوں سے ملاقات طے ہے، ان سے ملاقات کا وقت تو یونہی نکلا جارہا تھا۔

ایک نیشنل ہائی وے میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور دوسرے الحمید کنسٹرکشن کے ڈائریکٹر اور معروف سوشل میڈیا بلاگر، دوستوں کے ساتھ ملاقات کا بڑا نپا تلا وقت تھا اور وقت یوں ضائع ہونے پر افسوس تو تھا، مگر وقت پر جب اختیار نہیں ہوتا تو بندے کو اپنی اوقات یاد آجاتی ہے، ہم رش سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تو انکل گوگل کے چکر میں ایک دو "کٹ" غلط لے بیٹھے جس سے طویل چکروں کے بعد ہم نے اچانک خود کو ایک سرکاری عمارت کے پچھواڑے میں پایا۔

تو سوچا موقع بھی ہے دستور بھی ہے تو فوراً ڈپٹی ڈائریکٹر جناب ارسلان مشتاق صاحب کو فون گھمایا کہ جناب ہمیں شک سا ہے کہ آپ کے اردگرد پہنچ گئے ہیں، جناب نے فوراً لبیک کہتے ہوئے ہمیں ریسیو کیا، اور ہم تو حیران رہ گئے، بھئی کیا اتنے بڑے افسر ایسے بھی ہوتے ہیں، نہ افسرانہ اکڑ، نہ گردن میں سریا، بلکہ پولیس کے عمومی تاثر کے ایک سو اسی درجے برعکس، ملنسار، نرم خو اور ہنس مکھ ینگ آفیسر جو یوں ملے جیسے بچپن کے یار ملتے ہیں۔ بھئی قسم سے ہم تو ارسلان صاحب کی باتوں، رویے اور گرم جوشی کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ارسلان صاحب کی معیت میں نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس ہیڈکوارٹر میں مختلف دفاتر جیسے پبلک ہیلپ ڈیسک، کال سنٹر، سرویلئنس سنٹر، اور شہداء کی یادگار پر گئے۔

اس کے بعد کچھ مس انڈر اسٹیڈنگ کی وجہ سے بشارت حمید صاحب سے ملاقات تاخیر کا شکار ہوگئی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مکرر ملاقات ہوگئی، پہلے تو یونہی چلتے چلتے سڑک کنارے ملنے پر اتفاق ہوا، وقت کی کمی کے باعث، سلام دعا کے بعد بشارت صاحب نےاپنی تخلیقات "تعمیر مسکن" اور نقوشِ خیال " ہمیں تحفتاً دیں، سڑک کنارے تقریباً اندھیرے میں ہی ایمرجنسی فوٹوسیشن ہوا جس سے ہم باری باری براؤن رنگ کے دکھائی دیے، حالانکہ آئینہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم فیئر ہیں۔

اس کے بعد بشارت صاحب کلائنٹ کو گھیرنے چلے گئے اور ہم اسلام آباد کی شاہراہوں پر آوارہ گردی کرنے لگے، یہ آوارہ گردی ہمیں بٹ کڑاہی تک لے گئی، جہاں ارسلان صاحب کی طرف سے بہترین عشائیہ دیا گیا، وہیں پر ہی دوبارہ بشارت صاحب نے آکر ہمیں جوائن کرلیا، بشارت صاحب اپنے بلاگز کے برعکس نہایت شگفتہ مزاج کے نفیس الطبع شخص تھے۔

ان کی شخصیت کے متعلق بے جا سنجیدگی کا تاثر تھا جو زائل ہوگیا، کھانے کے بعد چائے اور پھر سوشل میڈیائی دوستوں کے متعلق گپ شپ، ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کے بعد رات گئے ہم نے مجبوراً اس نشست کو برخاست کیا، کیونکہ تین چار دانشور جہاں اکٹھے ہوں وہاں دانشوری جھاڑنے کا موقع کسی ایک کو بھی نہیں ملتا، گلے ملے، رب راکھا کہا، یادوں کی پوٹلی باندھے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔

Check Also

Ghair Islami Mulk Ki Shehriat Ka Sharai Hukum

By Noor Hussain Afzal