Aik Raat
ایک رات
رات کسی بڑھیا کی مانند چرخہ لیے رنگوں میں رنگی کہانیاں کات رہی تھی۔ چودھویں کے روشن چاند نے آسمان کو سر پر اٹھا رکھا تھا، چاندنی نے فلک سے جھانکتے ہوئے نیچے کی دنیا پر نرماہٹ سی چھب ڈال رکھی تھی۔ سرسبز و شاداب پتوں سے مزین ایک تنہا درخت، موسم سرما کے خلاف آخری مزاحمت کار کے طور پر سر اٹھائے کھڑا تھا۔
سربستہ بھیدوں سے بھری یہ وہ رات تھی جب صحرا نے کھلے دل کے ساتھ ٹھنڈی ہوا کو خوش آمدید کہا، رات، چاندنی، صحرا، شجر، باد نسیم ان سب کے درمیان ایک ایسا درویشانہ تال میل تھا جو رقص کی صورت سرگوشیوں میں دہرایا جا رہا تھا مگر صرف اس شب یا پھر شب گزیدہ کی سماعتوں پر ہی آشکار ہو سکتا تھا۔
آفاقی شاہکار کے نیچے، میں نے اپنے آپ کو اس طلسماتی منظر کے عین قلب میں محسوس کیا، جہاں چاند کی چاندنی مدھر ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوئی جب صحرا کے پڑوس میں بسے سمندر کے پانی سے گلے ملتی تو مد و جزر سے بننے والے سرکش دائروں میں روشنی ضم ہوکر دور ان دیکھے جزیروں تک بہتی چلی جاتی تھی۔ فطرت کے آرکسٹرا کی سمفنی سے لبریز ہوا، اور ہوا کے نم بوسوں سے پتوں کی کسمساہٹ، جھینگر کے آزاد گیتوں کی بازگشت، دور ساحل سے ٹکراتی موجوں کی مست جھنکار میں یہ سب ایسا ہم آہنگ امتزاج تھا کہ سمندر سے جدا صحرا کی ریت بھی مخمل و ریشم کی مانند بچھی جا رہی تھی۔
جیسے ہی میں اس اکلوتے پیڑ کے پاس پہنچا جس کی چاندنی میں نہائی لچکدار شاخیں ہوا کی بانہوں میں بانہیں ڈالے رقصاں تھیں، اسے سمے قریبی پہاڑیوں سے تازہ اگی گھاس کی خوشبو نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ مہک جس میں اک نیا جیون گھلا ہوا تھا، سردیوں کی قربت کی خبر دیتی خوشبو سے لبریز ہر سانس میرے حواس کو حیات نو بخش رہی تھی۔
ایک ایسی رات جب جواں چاند، بے قرار سمندر، جوبن رت کی چاندنی، سبز پتوں والا رقصاں درخت، موسم سرما کا آغاز، صحرا میں باد نسیم سے مدھوش جھینگر کی نغمگی، سمندر کی لہروں کے سنگیت، پہاڑوں پر تازہ قدرتی گھاس کی زندگی سے رچی مہک ہو تو بقولِ شاعر تن تنبورا بن جاتا ہے اور سانس کی ہر تار الگ الگ سُروں کا ساز چھیڑتی ہے، راگ شہ رگ سے ٹکرا کر لہو میں گونجتے ہیں اور قریہ جاں میں دھمال ہونے لگتی ہے۔
اس منظر میں فطرت کے امرت کا جام تھا، جسے اس شب کوئی جرعہ جرعہ نوش کر رہا تھا۔ یہ وہ رات تھی جو آوارہ چکور کی روح میں نقش ہوگئی تھی۔