Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Aik Nut

Aik Nut

ایک نٹ

روس کے ایک قصبے میں ریلوے اسٹیشن پر نیا محافظ تعینات ہوا۔ تعیناتی کے پہلے روز وہ ریلوے اسٹیشن کے قریب بچھی ہوئی پٹڑی کی دیکھ بھال کے لیے گشت کر رہا تھا، کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا جو بڑا سا آہنی اوزار تھامے پٹڑی کو زمین میں نصب کرنے والے چوڑی دار نٹ کھول رہا تھا، محافظ نے اسے پکڑا اور اسے تفتیش کے لیے پولیس سٹیشن لے گیا۔

تفتیشی افسر: کیا تم جانتے ہو کہ تم جو کچھ کر رہے تھے وہ کتنا خطرناک ہے؟

تم پر ہزاروں بے گناہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام ہے۔

ملزم: اتنا بڑا الزام؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے، میں تو صرف ایک نٹ کھول رہا تھا جو کسی کو بھی تکلیف نہیں پہنچا سکتا؟ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔

تفتیشی افسر: تم نٹ کیوں کھول رہے تھے؟

ملزم: میں ایک ماہی گیر ہوں اور مجھے مچھلی پکڑنے کے دوران جال کو پانی میں ٹھیک طرح سے پھینکنے کے لیے جال کے کناروں کے ساتھ کوئی بھاری چیز لٹکانے کی ضرورت ہوتی ہے، تو بطورِ وزن میں نٹ اس جال کے ساتھ باندھ دیتا ہوں۔

تفتیشی افسر: تم نے ایسی وزن دار چیز خریدی یا خود سے بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

ملزم: جال کے لیے سوراخ والی زیادہ وزنی چیزوں کی ضرورت اکثر رہتی ہے، اور میں ایک غریب مچھیرا ہوں، چوڑی دار نٹ کو کھولنا، خریدنے یا بنانے سے زیادہ آسان ہے، اور پورا قصبہ ایسا ہی کرتا ہے۔

تفتیشی افسر: یہ تم کیا کہہ رہے ہو، یہ پاگل پن کی انتہا ہے، تم سب لوگ مل کر کیا کر رہے ہو اور سارے گاؤں نے تمہاری طرح چوڑی دار نٹ چوری کیے ہیں تو پھر ریل ضرور الٹ جائے گی۔

ملزم: نہیں، یہ ایسا کبھی نہیں ہوگا، ہم ایک طرف والے نٹ کو کھولتے ہیں اور دوسری طرف اس کے سامنے والے نٹ کو لگا رہنے دیتے ہیں، اس طرح باری باری ہم اسی ترتیب سے نٹ کھولتے ہیں تاکہ ریل کا بوجھ تقسیم ہو جائے، ہم نے یہ بات اسکول میں فزکس کے اسباق میں اس وقت سیکھی جب ہم چھوٹے تھے۔

تفتیشی افسر: کچھ بھی ہو تم لوگوں کے اس فعل سے ریل اور انسانی جانوں کو خطرہ ہے، اور کیا تم لوگ ان تمام چوڑی والے نٹوں کو جال کے نیچے لگا کر مچھلی کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہو؟

ملزم: میں اور میرے بھائی انہیں شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ہمارا پڑوسی اسے میئر کے گھر اور تھانے کے تالے اور کُنڈیاں بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

تفتیشی افسر: یہ تم کیا کہہ رہے ہو، اور تمھارا پڑوسی ایسا کیوں کرتا ہے؟

ملزم: میئر نے اسے اپنے گھر اور تھانے کے دروازوں کے لیے نئے تالے بنانے کو کہا، لیکن اس میئر نے اسے پیسے نہیں دیے، اس لیے اس نے بغیر کسی خرچ کے تالے بنانے کا طریقہ سوچا، اور اسے اس سے بہتر کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ ٹرین کے چوڑی دار نٹ وہ بھی خالص لوہے کے۔

تفتیشی افسر: بلاشبہ اس کے پاس اور حل نہیں تھا، لیکن میئر نے جب وہ چوڑی دار نٹ دیکھے، تو کیا اس نے تالا ساز سے پوچھا کہ تم نے انہیں بنانے کے لیے رقم اور سامان وغیرہ کا بندوبست کیسے کیا؟

ملزم: نہیں، میئر کو کوئی پرواہ نہیں تھی، اسے صرف نئے تالوں سے غرض تھی اور وہ اسے مل گئے۔

تفتیشی افسر: ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم نے کوئی بڑی آفت آنے سے پہلے ہی سارا معاملہ دریافت کر لیا، میں اس قصبے میں بچھی ریل کی پٹری پر پہرہ دینے کا حکم جاری کروں گا تاکہ آئندہ کوئی چوڑی دار نٹ کو کھول نہ سکے۔

ملزم: مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوگا، کیونکہ ہمیں اپنے ساتھ والے گاؤں سے چوڑی دار نٹ مل جائیں گے، ہم ان سے سستے داموں خرید لیں گے۔

تفتیشی افسر: گھبراہٹ اور غصے سے کانپتے ہوئے، ملزم سے پوچھنے لگا کہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیا وہ بھی تمہاری طرح نٹ چوری کرتے ہیں؟

ملزم: جی جناب، ریل کی پٹری کے آس پاس کے تمام دیہات ایسا ہی کرتے ہیں، وہاں ان کو شکار کے لیے استعمال کرنے والے، انہیں بیچنے والے اور ان کے ساتھ ساتھ تالے بنانے والے بھی ہیں، ہم سب ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ جیسا کہ ہمارے پاس کوئی متبادل وسائل نہیں ہیں، حتیٰ کہ ہمارے پاس سستی ترین چیزیں خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اپنی بقا کے لیے ریل کے چوڑی دار نٹ کو ہی کھولنا ہوگا۔

تفتیشی افسر: اگر سرکار آپ کی معقول تنخواہیں مقرر دے تو کیا تم لوگ چوڑی دار نٹ چوری کرنا چھوڑ دو گے؟

ملزم: مجھے خوف ہے جناب کہ نٹ کھولنا یہ سب کی پختہ عادت بن چکی ہے، اگر آپ کو چوڑی دار نٹ کی چوری سنجیدگی سے روکنی ہے تو آپ کو پھر بچپن سے ہی تعلیم دینی چاہیے کہ بڑے ہوکر انہیں کیا کرنا چاہیے، اس کے بعد نوجوانوں کی محرومی جب ختم ہوجائے گی اور انہیں گھر کی دہلیز پر انصاف، کام اور مناسب تنخواہ مل جائے گی تو وہ کبھی بھی چوڑی دار نٹ چوری کرنے کا نہیں سوچیں گے۔

تفتیشی افسر: میں یہ سب تجاویز اپنی رپورٹ میں لکھوں گا، اور پھر دیکھتے ہیں کہ گورنر کیا کرتا ہے۔

اس کے بعد تفتیشی افسر نے فائل بند کر دی، اور اگلی ریل پر سوار ہوگیا جو دارالحکومت کی طرف واپس جارہی تھی۔

کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے، تفتیشی افسر اپنے آپ سے کہنے لگا، کاش ہم جلد از جلد فیصلہ کرلیں، کیونکہ معاملہ انتہائی خطرناک ہے، معاشی محرومی اور دکھی لوگ، یہ کسی بڑی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

انہی سوچوں میں غلطاں تفتیشی افسر نے ریل کی پٹڑی کے کنارے کھڑے ایک چھوٹے بچے کو دیکھا، اس کے چہرے سے خوشی مترشح تھی، وہ ہنس رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں چوڑی دار دو نٹ تھے، یہ دیکھ کر تفتیشی افسر گھبراہٹ میں کانپ اٹھا، اور زور سے چلایا، ریل کو روکو، ریل کو روکو۔

لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔

تصادم کی بھیانک آواز پر چیخ و پکار کا شور مچ گیا

اور ریل الٹ گئی۔

چھوٹے لڑکے نے انجانے میں آمنے سامنے کے دونوں نٹوں کو کھول دیا تھا۔

اس نے وہی کیا جو قصبے کا ہر فرد کرتا آرہا تھا، لیکن اسے اس کام کی گہرائی اور انجام کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ وہ بچہ غریب پیدا ہوا اور نہ سکول گیا اور نہ ہی اس نے فزکس کے اسباق میں شرکت کی۔

حادثے کی تحقیقات میں لکھا گیا کہ ریل گاڑی کے حادثے کا ذمہ دار غریبی اور جہالت کا شکار ایک چھوٹا بچہ ہے، جس کی پرورش ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جو چوڑی دار نٹ چوری کرتا ہے، لہٰذا نٹ کھولنا ہی ریل گاڑی الٹنے کا سبب بنا۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz