Aaj Jo Bo-o Ge Kal Wo Kato Ge
آج جو بوؤ گے کل وہ کاٹو گے
بس کے پیچھے بے فکر ہو کر لٹکنے سے شروع ہونے والا سفر بس کے اندر سیٹ پر بیٹھے کسی نوجوان کے اٹھ کر کہنے سے کہ بڑے میاں آئیے میری جگہ پر بیٹھ جائیں پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس درمیانی وقفے کو زندگی کہتے ہیں۔ یہ آنکھ جھپکنے جتنا مختصر ترین لمحہ کب گزرتا ہے پتا ہی نہیں چلتا۔ جینے کا اور زندگی کو تہوار کی مانند بھرپور منانے کا یہی وقت ہوتا ہے، اسی وقت میں وہ بیج بوئے جا سکتے ہیں جو تغیر وقت اور حوادث زمانہ کے بعد تناور، سایہ دار اور پھلدار شجر بنتے ہیں، کل کلاں کو جن کی گھنی چھاؤں میں بے فکر ہو کر بیٹھا جا سکتا ہے۔
آج جو بو رہے ہو کل جزا کی زمین پر گلاب ہوں گے یا کانٹے دار جھاڑیاں ہوں گی اس بات کا فیصلہ تمھارے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے کہ بس چھوٹ جائے اس درمیانی وقفے کو غنیمت جانو اور اسے بھرپور جینے کے لیے سخت محنت کرو۔ بڑی منزل کے مسافر کو چھوٹی چھوٹی بھول بھلیوں میں گم ہو کر تاریک راہوں کا رزق نہیں بننا چاہیے، عربی میں کہتے ہیں کہ چاند کو ہلال سے بدر ہونے میں آسمان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
اس کی آب و تاب اور چاندنی کے پیچھے اس کی اماوس کی تلخ راتوں کا بھی حساب ہوتا ہے، اس لیے لوگ جس حالت میں ہوتے ہیں انہیں اس حالت میں دیکھ کر کوئی رائے یا اندازہ قائم نہ کرنا بلکہ جب تک تم کسی کی حقیقی جدوجہد سے واقف نہیں ہوتے تب تک اپنے رائے بنانے سے احتراز کرنا۔ تم جسے نیکی سمجھتے ہو ضروری نہیں کہ حقیقت میں بھی وہ نیکی ہی ہو، مگر جسے تم بدی سمجھتے ہو وہ حقیقت میں بدی ہی ہو گی یا نہیں، اس لیے کوئی راہنما، کوئی مرشد ضرور ڈھونڈو جو تمھیں علم کی اصل معراج سے واقف کرے۔
علم خود شناسی سے خدا شناسی تک کے سفر کا نام ہے، اگر تم اپنی ذات کے بھید نہیں جانتے ہو تو تم کائنات کے کسی بھی اسرار سے واقفیت نہیں حاصل کر سکو گے۔ لوگوں کو متاثر کرنا چھوڑ دو۔ لوگوں سے متاثر ہونا بھی چھوڑ دو۔ محفل برخواست ہونے کے بعد جو سب سے کم پچھتاتا ہے وہ سب سے کم بولنے والا شخص ہوتا ہے۔ اپنے رزق کو نمود نمائش میں ضائع نہ کرنا۔ اپنے وقت کو ایک ایسا خزانہ سمجھو جو اگر استعمال نہ ہو تو ختم ہو جاتا ہے، جی ہاں وقت وہ واحد خزانہ ہے جسے جتنا مثبت و مفید خرچ کرو گے اس سے بڑھ کر اس کا بدلہ پاؤ گے۔
جو تمھاری محنت کی کمائی نہیں ہے یاد رکھنا وہ مال کسی صورت بھی تمھارا نہیں ہو سکتا، میں نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے دوسروں کا حق مار کر اپنے لیے محل تعمیر کروایا مگر انہیں اس میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ جس طرح شکستہ مکان کو مرمت کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح نیکی اور بدی کی کشمش میں جکڑا وجودِ آدم ہر دم توڑ پھوڑ کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے، اس لیے کبھی بھی تعمیر ذات اور خود پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے گھبرانا مت۔
دنیا کا بہترین پیشہ خدمت ہے اور خدمت وہ جس کا اعتراف دوسرے لوگ کریں نا کہ اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا پڑے، سورج کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے نہ ہی اشتہارات کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی بلند و بانگ دعوؤں کی۔ ذاتی زندگی کی تشہیر سب سے زیادہ فضول اور خطرناک شے ہے اس سے بچتے رہنا۔ وہ سماج جہاں ماضی کو فراموش کرنے والے اور مستقبل کی فکر سے عاری لاپروا لوگ بستے ہوں وہاں مقبول ہونے کی چاہ کا مطلب عزت کو سر بازار بیچ چوراہے میں نیلام کرنے کے مترادف ہے۔
اس لیے عزت چاہتے ہو تو اپنے پیشے اور اپنے کام کو عزت دو، تاکہ لوگ تمھیں تمھارے کام سے جانیں ناکہ تمھارا واحد تعارف تمھارا حسب و نسب ہو۔ جو بھی کام کرنا چاہو اس سے پہلے اپنے آپ سے ایک سوال ضرور کرو، کیوں؟ اور کس لیے؟ پھر اس کا جواب اگر تمھارے ضمیر کو دھوکا دینے کی بجائے حقیقت میں مطمئن کر لے تو وہی بہتر ہے۔
سفر کے اختتام سے چند لمحے پہلے جب تم گہری سوچ میں گم بیتے سفر کی روئیداد کو یاد کرو گے تو تمھارے چہرے پر مسکراہٹ لانے والے خیالات وہ یادیں ہوں گی جن میں تم نے بے لوث ہو کر صلے کی تمنا کیے بغیر کچھ کیا ہو گا، اور ان لوگوں کے لیے کیا ہو گا جن کے پاس بدلے میں تمھیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا حتیٰ کہ شکریہ کا لفظ، دعا اور مسکراہٹ بھی نہیں دے سکتے تھے، لیکن پھر بھی تم نے بغیر کسی لالچ کے ان کو زندہ رہنے میں مدد دی ہو گی۔