1984
1984
کلاسک ادب کے میدان میں، جارج آرویل کا ڈسٹؤپین ناول انیس سو چوراسی "1984" ایک ایسا شاہکار ہے جو نسل در نسل قارئین کے ساتھ محوِ سفر ہے۔ 1949 میں شائع ہونے والا یہ ناول، خوفناک حد تک مطلق العنان مستقبل کا قابل فہم ویژن پیش کرتا ہے۔ اس ناول کی شاندار بات یہ ہے کہ جس دور میں بھی اسے پڑھا گیا اسی دور پر مصداق آیا، یہ ناول آج کے دور کا بھی صد فیصد عکاس ہے۔
1949 میں لکھے ناول کے اندر مستقبل یعنی سال 1984 کے منظر نامے کی کہانی ہے جو اوشیانا کی سپر سٹیٹ میں جنم لیتی ہے، جہاں حکمران پارٹی، جس کی قیادت خفیہ شخصیت بڑے بھیا "بگ برادر" کرتی ہے، بڑے بھیا شہریوں کی زندگی کے ہر پہلو پر طاقت، جبر اور پراپیگنڈے سے مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ ملک کے ہر کونے کھدرے میں ٹیلی اسکرینیں اور مائیکروفون نصب ہیں جو شہریوں کی انفرادی و ذاتی زندگی پر قدغن لگاتے ہوئے ان کی ہر حرکت کو نوٹ کرتے ہیں حتیٰ کہ ایسی پولیس بھی ہوتی ہے جو انسانوں کے خیالات جان سکتی ہے، اور مخالف نظریات رکھنے والے کو فوراً سیدھا بھی کر سکتی ہے۔
ہر جگہ بڑے بڑے پوسٹر آویزاں ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ "بڑے بھیا کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے"۔
بڑے بھیا نیوز اسپیک نامی ایک نئی زبان ایجاد کرکے ملک کے اندر رائج کردیتے ہیں، جس کا مقصد سوچنے سمجھنے اور فکری صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔
اوشیانا میں سب سے بڑا جرم "سوچنا" ہے اور جو بھی بڑے بھیا کے نظریات سے ہٹ کر سوچتا ہے اسے جیل کے خوفناک ترین کمرہ نمبر 101 میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پر برین واشنگ کرکے "سافٹویئر اپڈیٹ" کیا جاتا ہے۔
WAR IS PEACE، FREEDOM IS SLAVERY and IGNORANCE IS STRENGTH.
ریاست مخالف بیانیے یا نظریات کو طاقت کے ساتھ سختی سے کچلا جاتا ہے، ہر رات دو گھنٹے کے لیے ریاست مخالف افراد کے خلاف ٹیلی سکرینوں پر نفرت انگیز پروگرام نشر ہوتا ہے جسے دیکھنا اور اس نفرت انگیز بیانیے کی ہاں میں ہاں ملانا ہر شہری پر فرض ہوتا ہے۔
مرکزی کردار، ونسٹن اسمتھ، پارٹی کے نچلے درجے کا رکن ہے جو مطلق العنانی سے پیدا ہونے والی گھٹن زدہ زندگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بگ برادر کے طرزِ حکومت پر سوال اٹھانا شروع کر دیتا ہے اور پارٹی کی طرف سے عائد کردہ من گھڑت حقیقت سے ہٹ کر سچائی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ونسٹن کباڑیے سے ایک ڈائری خریدتا ہے اور اس پر اپنے خیالات لکھتا ہے جسے پوشیدہ رکھنے کی وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
ناول میں پیش کی گئی ڈسٹوپین دنیا کی تعمیر، کڑی نگرانی، پروپیگنڈے اور سچائی کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کے بارے میں آرویل کی حیرت انگیز پیش گوئیوں سے عبارت سطر در سطر اس کی غیر معمولی ادبی ذہانت جھلکتی ہے۔
"1984" انسانی فطرت کے تاریک ترین گوشوں میں ایک مسلسل سفر ہے، جو سچائی کی نوعیت، رازداری کی قدر و قیمت، اور شتر بے مہار سیاسی طاقت کے نتائج کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔ آرویل کی نثر فصیح اور اشتعال انگیز دونوں طرح کے اثرات سے بھرپور ہے، جو قاری کو جابرانہ ماحول کی اصل تصویر دکھا کر، آمر کے شکنجے میں پھنسے ہوئے لوگوں کی بے بسی اور مایوسی کا احساس دلاتی ہے۔
آخر میں، جارج آرویل کا "1984" ادب کا ایک لازمی حصہ ہے جو قارئین کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کا جائزہ لیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسی شتر بے مہار سیاسی طاقت کے مضمرات پر غور کریں۔ اس ناول کا تھیم اور کہانی ہر اس شخص کے لیے ہے جو سیاست، ٹیکنالوجی اور انسانی فطرت کے سنگم کو تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔