Thalassemia, Mujhe To Khoon Lagna Hai
تھیلیسیمیا، مجھے تو خون لگنا ہے
تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے، اور اس کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک الفا تھیلیسیمیا اور دوسری بیٹا (beta) تھیلیسیمیا، اگر دونوں میں سے کوئی بھی شوہر یا بیوی میں ہو تو اس کے نتیجے میں ان کے بچوں میں تھیلیسیمیا کا مرض لازمی منتقل ہو جاتا ہے۔ جس کے باعث پھر ان کے بچوں میں خون نارمل بچوں کی نسبت بہت کم پیدا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں بلڈ بنک کے محتاج ہو جاتے ہیں۔
اور ہر سرگرمی میں دوسروں بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پچھلے اتوار میرے پیارے دوست اویس اکرم جو ماشاءاللہ سے کسی سے بھی فلاحی کاموں میں پیچھے نہیں رہتے، ایک واٹس ایپ گروپ بنایا اور کالونی کے تمام دوستوں کو اس میں شامل کیا، اور تھیلیسیمیا کے بچوں کے لئے خون کا عطیہ دینے کے لیے بھرپور مہم چلائی، جس کے نتیجے میں کافی دوستوں، بزرگوں اور خواتین نے خون عطیہ دینے کیلئے رضامندی ظاہر کی۔
اویس جس نے پہلے سے ہی فاطمیڈ فاؤنڈیشن، جو تھیلیسیمیا کے بچوں کیلئے خون جمع کرتی ہے۔ ان سے بات کی ہوئی تھی، جو عین مقرر وقت تین بجے کالونی میں پہنچ گئی، اور اپنا بلڈ کیمپ لگا دیا، بڑے بھائی عابد کو جب میں نے بتایا کہ میرا دوست اویس اس طرح بلڈ کیمپ لگا رہے ہیں، تو خون چاہیے، بڑے بھائی ہمیشہ کی طرح آگے بڑھے اور ہم دونوں بھی خون دینے چلے گئے۔
مجھے اس دن تھوڑی جلدی تھی۔ تو میں نے اویس کو کہا کہ پہلے مجھ سے خون لیا جائے کیونکہ میں نے چار بجے آفس جانا تھا، میں نے خون پہلے بھی کئی بار دیا ہوا تھا، جب میڈم نرس میرا خون لینے آئی تو، میں نے بائیں ہاتھ آگے کر دیا میڈم نرس کافی دیر تک میری خون کی نالیوں کو ڈھونڈتی رہی۔ لیکن نہیں ملی کیونکہ میری وینز کافی باریک ہے، میں نے پھر اپنا دائیں ہاتھ آگے کیا۔
جس کو میڈم نرس نے کافی ٹائٹ سٹریچر سے باندھا اور بڑی مشکل سے وینز نظر آئی اور یوں بلڈ پیکٹ میرے ہاتھ کے ساتھ جوڑ دیا، ساتھ ہی لیٹے بڑے بھائی عابد اور دوسرے شہری بھی خون دے رہے تھے، میڈم نرس جب تھوڑی دیر بعد پھر میرے پاس آئی کہ کتنا بلڈ ابھی تک نکلا تو جب انہوں نے بلڈ پیکٹ اوپر کیا تو ایک بار تو میں بھی شرمندہ ہوا کہ یار بات تو بڑی شرم والی ہے کہ آج اگر بلڈ نہ نکلا تو موجود تمام دوست مزاق بنائے گیں۔
خیر میں نے میڈم نرس کو کہا کہ میڈم آپ نے ہاتھ کو اوپر سے بہت ٹائیٹ باندھا ہوا ہے۔ تھوڑا ہلکا باندھے تاکہ اوپر سے کچھ خون آ جاے خیر ایسا ہی کیا اور یوں پھر خون کا پیکٹ بھی بھر گیا اور میں وہاں سے آرام کیے بغیر اٹھ کھڑا ہوا اور جوس پیا اور گھر چلا گیا، بھائی کو کہا کہ بھائی مجھے آفس چھوڑ آئے بھائی نے ابھی بائیک سٹارٹ ہی کی تھی کہ مجھے چکر آ گئے اور میں یوں پکی سڑک پر جا گرا۔
اور کچھ چار سے پانچ منٹ تک بہوش رہا، بھائی نے فوراً سے مجھے اٹھایا اور کھڑا کرنے کی کوشش کی، کچھ آنکھ کھلنے لگی تو کافی لوگ اردگرد نظر آ رہے تھے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہوا کیا ہے؟ بھائی اوپر گھر مجھے اٹھا کر لیکر گئے اور پانی پیا کچھ آنکھ کھلنے لگی، جب بعد میں تھوڑا مکمل ہوش آیا تو شیشہ میں منہ دیکھا تو کافی چوٹ آئی ہوئی تھی۔
لیکن اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ بچت ہو گئی۔ پھر خیال آیا کہ بیشک یہ خون کے صدقے کی وجہ سے بچت ہو گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدقہ موت کو ٹالتا ہے۔ اگر میرے ساتھ یہ حادثہ چلتی بائیک سے ہو جاتا تو یقیناً بہت برا ہوتا، اللّٰہ پاک کا لاکھ شکر کہ بچ گیا، اور کسی بڑے حادثے سے نجات مل گئی۔ سب سے پہلے تو تمام بھائیوں دوستوں سے اپیل ہے کہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا۔
ہمارے بھائی ہمارے خون کا انتظار کرتے ہیں۔ اس لیے دل کھول کر ان کے لیے اپنے خون کا عطیہ دیا کریں۔ وہ ہمارے آس پر اپنی مختصر سی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی ہماری وجہ سے ایک دن زیادہ جی لے گا تو سوچے تمام جہانوں کا مالک ہم سے کتنا خوش ہو گا؟ لہٰذا کسی بھی رجسٹرڈ ادارے کے پاس جا کر خون کا عطیہ سال میں ایک سے دو بار ضرور دیں، لیکن خون عطیہ کرنے کے بعد آرام کرنا نہ بھولیے گا۔ (برادرانہ مشورہ)
آخر میں حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ پاکستان میں ہر مرد، عورت کا شادی سے پہلے تھیلیسیمیا اسکریننگ ٹیسٹ ضرور لاگو کریں تاکہ تھیلیسیمیا کے مرض میں کمی ہو سکے اسی طرح ایران، ترکی اور دوسرے ممالک میں ٹیسٹ کے انعقاد کی وجہ سے آج وہاں پر صفر تھیلیسیمیا کی شرح ہے۔