PDM Aur PNA
پی ڈی ایم اور پی این اے
پاکستان کا حالیہ بحران کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہر آدمی جو تھوڑا بہت بھی شعور رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ وطن عزیز کتنے پانی میں کھڑا ہے، مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ ہر دوسرا شخص روزمرہ کی ضروریات پورا کرنے کی بازگشت سنا دیتا ہے کہ کس مشکل سے مانگ تانگ کر گزارا کر رہا ہے، پاکستان کے سابق صدر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بائیوگرافی جیسے جیسے اگلا باب شروع کرتا ہوں گویا ایسا لگتا ہےکہ آج وطن عزیز کی کسی ٹیلیوژن کی تازہ بریکنگ نیوز سن رہا ہوں۔
آج کی پی ڈی ایم اور بھٹو دور کی پی این اے جس میں کافی ایسی چیزیں ہیں جو آپس میں مماثلت رکھتی ہیں، آج کی پی ڈی ایم ستر کی دہائی کی پی این اے کے عین مطابق جیسے چل رہی ہوں، وہی الزامات، سیاسی کیسز، جھوٹے مقدمے اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا آج بھی صفحہ اول میں شامل ہیں، پی این اے کی پشت پناہی کرنے والی فوجی دور میں بنائے گئے قوانین 124 اے جس کے تحت کتنے بے گناہ سیاسی اور سماجی لوگوں کو صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے جیل کی کال کوٹھری میں پھینکا گیا تھا اور ہے اور آگے اللہ جانے کس کس کو پھینکا جائے گا۔ اس کا کوئی پتا نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنی خودنوشت میں اگر مجھے قتل کیا گیا کہ صفحہ نمبر 125 پر لکھتے ہیں کہ "جنوری 1977 میں خفیہ ہاتھوں کے بارے میں مجھے رپورٹیں ملنے لگیں۔ اسی مہینے میں رفیع رضا نے جو میرے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پی این اے ایک وجود حاصل کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی این اے کا صدر کون ہوگا اور اس کے دوسرے عہدیدار کون ہوں گے۔ انہوں نے مجھے اس کے ڈھانچے ڈیئزن حکمت عملی اور مقاصد کے بارے میں وجوہات بتائیں۔ اپنے انکشافات کے آخر میں انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس تین متبادلات ہیں۔
میں (بھٹو) نیوکلیئر پروسیسنگ پلانٹ کو بھول جاؤں اور اپوزیشن کبھی متحد نہ ہو سکے گی۔
انتخابات ملتوی کر دوں۔
یا پھر سنگین نتائج کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہوں۔
یہ ہے وہ محرکات جو بھٹو نے جیل کی کوٹھری میں بند کرنے کی کوشش کی، کیا آج ہم اخبارات، ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا پر یہ نہیں سن رہے؟ کیا آج ماضی نہیں دہرایا جا رہا؟ کیا بھٹو والے الزامات آج وہی الفاظ عمران خان نہیں بول رہا؟ کیا پی ڈی ایم، پی این اے کی زبان نہیں بول رہی؟ کیا فوج نے سیاست سے کنارہ کشی کر لی؟ آج ہمیں وطن عزیز میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملے گی جو ستر کی دہائی میں نہ ہوئی ہو، وہی ماضی کی کہانیاں وہی قصے پرانے۔
میرا یہ تمام بھٹو کی خودنوشت کے بارے میں بتانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ تب پی این اے غلط تھی اور بھٹو صحیح راہ پر گامزن تھے، اور آج عمران خان درست ہے اور پی ڈی ایم غلط ہے یا صحیح ہے۔ بات جو توجہ طلب ہے کہ کیا ہم ماضی سے کچھ نہیں سیکھتے؟ بدقسمت ہے پاکستانی قوم کیونکہ ماضی میں ہم جو کچھ کرتے رہے ہیں اس سے سیکھنے کو بھی تیار نہیں ہیں، اور ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ہم اتنے نا سمجھ کیوں ہیں کہ ماضی سے کچھ بھی سیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور جو قومیں ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں وہ طرح طرح کے مسئلے مسائل اور ایک عذاب میں ہی مبتلا رہتی ہیں جیسا کہ ہم ہیں۔ چاہے یہ مسائل معاشی بحران کی صورت میں ہوں یا پھر سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ان سے جان چھڑانا نہایت ہی ضروری ہے۔ آج بھی ہم ستر کی دہائی کی سیاست سے افسوس نہیں نکل رہے اور اپنی اناپرستی کی وجہ آج وطن عزیز کو پھر سے وہی معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام اور دہشتگردی کی جنگل میں پھینک دیا ہے۔
پرسوں جو اسلام دشمن عناصر نے پشاور پولیس لائن میں خودکش دھماکا کیا اور تقریباً سو سے زائد افراد اور سینکڑوں زخمی ہوئے، ان کا کون ازالہ کرے گا؟ وہ سو خاندان کو چند پیسوں کی امداد دیکر کبھی بھی سکون نہیں ملے گا۔ اللہ پاک متاثرین کے لواحقین کو صبر دیں اور وطن عزیز پاکستان کی معاشی، سیاسی، اخلاقی، اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمائیں، اور وطن عزیز کے بااختیار لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے، بیٹھے اور چلنے کی توفیق عطا کر تاکہ دنیا وطن عزیز پاکستان اور مسلم امہ کی بلندی ہو، آمین۔