Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Taimoor Khattak/
  4. Mujaddid Alf Sani Ki Naseehatein

Mujaddid Alf Sani Ki Naseehatein

مجدد الف ثانی کی نصحیتیں

حضور اکرم ص کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ اللّٰہ پاک کی ساری مخلوق اس کے حضور تسلیم خم ہو اور تمام لوگ آپس میں میل جول اور پیار محبت سے زندگی گزارے اور ایک بہترین معاشرے کو پروان چڑھائے۔ حضور اکرم ص نے اس تمام مقصد کے لیے جو تکلیفات اٹھائی وہ نہ صرف مسلمان بلکہ پوری اس کائنات میں کسی نے بھی نہیں اٹھائی۔

اللّٰہ تعالٰی کے اس عظیم مقصد کیلئے حضور اکرم ص کے بعد صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور پھر صوفیاء کرام نے اس مشن کو آگے بڑھایا جس کی بدولت پوری دنیا میں آج اسلام پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں دسویں صدی ہجری مغلیہ دور کے مشہور عالم و صوفی شیخ احمد سرہندی جو کہ مجد الف ثانی رح کے نام سے معروف ہے۔ انہوں نے حضور اقدس ص، صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور اولیاء کرام کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے برصغیر پاک و ہند میں اللّٰہ کا پیغام پہنچایا۔

مجدد الف ثانی کو اپنے دین اسلام کے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گزرنا پڑا۔ بعض امرا نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا:

"سجدہ اللّٰہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللّٰہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔ "

بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔

حضرت مجدد الف ثانی سے ایک بار ان کے مرید نے پوچھا یا حضرت شیخ مجھے زندگی کے لئے کوئی نصیحت فرمائیں۔ تو حضرت شیخ الہند رحمۃ نے فرمایا بیٹا ایک ہی زندگی کے لئے نصیحت ہے۔

"نہ کبھی خدا بننا اور نہ کبھی رسول بننا۔ "

مرید نے بڑے حیران ہو کر کہا یا مرشد خدا اور رسول بننے کا کون سوچ سکتا ہے بھلا؟ مجدد الف ثانی نے فرمایا بیٹا اگر نہ سمجھو تو یہی جواب کافی ہے اگر گہرائی میں جاؤ تو بڑے بڑے لوگ خدا اور رسول بننا چاہتے ہیں۔ مرید نے پوچھا یا شیخ اس کا کیا مطلب؟ فرمایا بیٹے یہ شان اللّٰہ تعالی کی ہے جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ وہ جو بھی ارادہ فرماتا ہے اسے خوب کر دینے والا ہے۔ البروج 16:85

بیٹا کبھی ایسی آرزو نہ رکھنا جو تم چاہو وہی ہو، کیوں کہ زندگی میں کبھی آپ کی منشا کے مطابق ہو گا کبھی آپ کی منشا کے مطابق نہیں ہو گا۔ آپ کی مرضی کے مطابق ہو جائے تو شکر کر لینا اگر آپ کی مرضی کے خلاف ہو جائے تو صبر کر لینا۔ یہ کبھی بھی نہیں سوچنا کہ جو میں چاہوں وہی ہو کیوں کہ یہ شان اللّٰہ تعالی کی ہے اگر یہ سوچیں گے تو مطلب ہم خود کو خدا بنانا چاہتے ہیں اس لیے معاذ اللہ اس طرح کبھی نہیں سوچنا۔

مرید نے پوچھا یا شیخ پھر رسول بننے کی کیسے بات ہوئی؟ فرمایا بیٹے یہ شان صرف رسول کی ہے جو اس سے اختلاف کرے وہ کافر ہے جو رسول کی بات کو رد کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔ یہ شان روئے زمین پر صرف حضور اکرم کی ہے جو اس کی بات کو رد کرے وہ کافر ہے اور اس طرح کی شان نہ کسی عالم کی ہے نہ کسی پیر کی ہے نہ کسی مفتی کی ہے اور نہ کسی اور کی ہے۔

اور اگر تم یہ کہو کہ جو تمہاری بات نہ مانے تو وہ کافر تو اس کا مطلب ہے تم اپنے آپ کو رسول کے منصب پر بٹھانا چاہتے ہو۔ لہذا اللّٰہ کا منصب اللہ کے لئے اور رسول کا منصب رسول کے لئے رہنے دینا۔ اور ہمیں چاہیے کہ ہم اللّٰہ تعالی کے بندے اور رسول کے غلام بن کر زندگی گزاریں۔ اور رہ گئی بات مسائل پر تو مسائل پر اختلاف ہر دور میں صحابہ کرام تابعین تبع تابعین فقیہ امام اور اولیاء کرام کا سب کا آپس میں رہا ہے۔

لیکن ان مسائل کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر، باغی اور لا تعلقی کا کبھی ذکر نہیں ہوا بلکہ مسائل پر اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کی اور ہمیشہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا لیکن اگر ہم آج موجودہ پاکستانی حکمرانوں اور علماء، فقہاء، فقرہ اور عوام الناس کی بات کریں تو ان میں یہ بالکل واضح ہے کہ یہ تمام لوگ کسی بھی اپنے ذاتی معاملات میں ہرگز دوسرے مخالف رائے کا احترام نہیں کرتے ہیں۔

ان کو صبر کرنے کے بجائے یہ اپنی مخالف رائے کو رد کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں چاہے پھر ان کو اپنی بات منوانے کے لئے سڑکوں پر جانا پڑے، عام پبلک میں جانا پڑے، جلسے جلوس کرنے پڑیں، ہائی کورٹ میں جانا پڑے، سپریم کورٹ میں جانا پڑے لیکن اپنی مخالف رائے کو رد کرنے کے لئے اپنی ذات اپنے نفس کو تسکین پہنچانے کے لیے ہر مقام ہر وہ دائرہ کراس کر سکتے ہیں۔

آج اگر ہم اپنی دینی علماء کے بارے میں بات کریں جن کا کام حضور اکرم ﷺ کا پیغام اس پوری کائنات اس پورے معاشرے میں پھیلانے کا تھا وہ آج اس کام میں پڑ گئے ہیں کہ ان کی زبان سے ایک دوسروں پر فتووں کے علاوہ دوسرا کوئی لفظ سننے کو نہیں ملتا جس کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ہم ٹی وی، اخباروں اور جہاں کہیں بھی دیکھیں تو ہمیں اس معاشرے میں صرف بے چینی، بد مذہبی اور بد امنی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو قتل و غارت اور طرح طرح کے واقعات کا کثرت سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور اگر اسی طرح ہم پاکستان میں موجودہ حکمرانوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ بات واضح ملتی ہے کہ ہمارے حکمران ایک دوسرے پر باغی دشمن، یہودی، عیسائی میر جعفر میر صادق اور طرح طرح کے القابات سے بلا دریغ یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں بجائے ہم وقتی طور پر ایک دوسرے کا احترام کرتے صبر کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس معاشرے کو علامہ اقبال رح کے خواب اور قائداعظم رح کے سنہری اصولوں پر چلاتے۔

لیکن ہم ایک دوسرے کو ایسی ایسی باتوں سے نواز رہے ہیں جس کی توقع شاید کبھی اپنے دشمن سے بھی اپنے گمان میں نہیں لاتیں، تمام عوام الناس، دینی علماء، فقہاء، فکرا، حکمران اور تمام بڑے اداروں سے اپیل ہے کہ اس کلچر کو دفن کریں اور خدارا ملک پاکستان کے بارے میں سوچیں جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی۔

Check Also

Magar Aik Maa Nahi Manti

By Azhar Hussain Azmi