Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syeda Alisha
  4. Har Subh Youm e Azadi

Har Subh Youm e Azadi

ہر صبح یوم آزادی

اس بات سے ہم سب با خبر ہیں کہ جب 14 اگست آتا ہے تو تمام اخبارات یومِ آزادی کے گیت گا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان آنکھوں سے کبھی وہ دن نہیں گزرا جب 14 اگست نہ ہو، اور یومِ آزادی کا ذکر اخبارات کی زینت بنا ہو۔ اس تحریر کا مقصد لوگوں کو یومِ آزادی کے صحیح تعارف سے واقف کرانا ہے۔

یومِ آزادی وہ دن ہے جس دن دو قومیں آزاد ہوئیں۔ ایک قوم دوسری قوم پر ظلم اور تشدد کرنے سے، اور دوسری قوم ظلم برداشت کرنے سے آزاد ہوئی۔ کیونکہ "انسانیت سوز ظلم کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے، مگر ظلم کا نشانہ بنانے والے تیر اندازوں کے لئے یہ سب محض کتابی باتیں ہیں، اور کوڑے دان میں کچرے کے مترادف ہے۔ لیکن ہماری اقوام نے حالات کا جائزہ لیتے ہی اپنے حق کےلئے آواز بلند کی۔ جو ملک کے حالات بدلنے کا سبب بنی کیونکہ "اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے"۔

اس مملکت پاکستان کو ہم نے بنتے دیکھا ہے، اس امیدوں کے چمن کو ٹہنتے دیکھا ہے، اور دیکھا ہے ہجرت کا عظم اٹھاتےہوئے، ٹرینوں میں کٹتےاور ٹکروں میں بٹتے ہوے دیکھا ہے اور وفا کے پرچموں کے مانند گردنوں کو لٹکتے ہوئے دیکھا ہے اور اس ملک کےلئے ہمارے قائدین علامہ اقبال، قائد اعظم کو ہمراہ بہت سی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں اور بھائیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے دیکھا ہے تاکہ آئندہ نسل کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک اس ملک کےلئے جدوجہد کرتے دیکھا ہے۔

بہت سے مصنفوں کی تحریروں میں یہ بات نظر آتی ہے کہ "یہ سال امید کی آخری کرن ہے" کہیں بطور مضمون اور کہیں بطورِ محاورہ جبکہ ہمارے قائدین نے ہمیشہ اس بات کو یوں پیش کیا ہے کہ؛

" ہر لمحہ، ہر دن، ہر منٹ اور ہر سیکنڈ

اس ملک کی تقدیر کےلئے امید کی نئی،

کرن اور بہترین تقدیر کا آغاز ہے"

ان تمام لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے اس لئے پیش نہیں کئے کہ یہ ملک بد عنوانی، چوری، جھوٹ اور فریب کی بھیٹ چڑھے۔ بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے اس لئے پیش کئے کہ یہ ایک مضبوط قوم بنے۔

پاکستان کوقدرت نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ اور لامحدود وسائل سے مالامال کیا ہے۔ تو ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کے ہم اس کی عمدہ سے عمدہ تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اور یہ بات یاد رکھیں کے مسلمان جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا، اگر اس کو جھکانے کی کوشش کی گئی، تو بابر بن جاءیگا یا ٹیپو سلطان کی صورت میں نمودار ہو گا، یے مر تو جائیگا لیکن محکومی قبول نہیں کریگا۔

یہ ملک بہت سے دھچکے، دھکے کھاتا، گِرتا، اٹھتا، پھسلتا، سنبھلتا، بار بار تنزلی میں جاتا، ابھرتا اور ترقی کرتا نظر آیا ہے۔ 14 اگست کا مطلب صرف آزادی نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یکجہتی ہے۔ وہ محبت ہے جوو قوم کے ہر فرد کو ایک دوسرے سے ہونی چاہئے۔ آپ خود غوروفکر کیجئے کہ اگر یہ جذبہ قوم کے ہر فرد کے دلوں میں ہوگا تو وہ کون سا دن ہے اور وہ کون سا لمحہ ہے جس میں لوگوں کے دل جشنِ آزادی کے نعروں سے سرشار نہ ہوں گے۔

"قائدین اور بہت سے لوگوں نے قربانیاں ایک دن 14 اگست منانے کےلئے نہیں دیں۔ بلکہ اُن کا مقصد آپکی زندگی کے ہر لمحے کو یومِ آزادی بنانا تھا"۔

بعض قومی رویے قابل اصطلاح، قابل توجہ اور خطر ناک ہیں۔ مگر اصلاح کون کرے۔ اصلاح تو معاشرتی، اصلاحی تحریریکیں، تعلیمی ادارے اور لیڈر شپ کرتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سب اس سے گمراہ دکھائی دیتے ہیں۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر،

مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر۔

آپ خود تفکر کیجئے کہ کیا ہم تیز رفتاری سے ملکوں کا سامنا کر پا رہے ہیں۔ اس کے جواب سے شاید ہم سب واقف ہیں۔ لیکن مت بھولئے۔"ہم وہ لوہا ہیں وہ تانبا ہیں جس کو نہ کوئی پگھلا سکتا ہے اور نہ کوئی توڑ سکتا ہے، وہ کتاب ہیں جو پڑھنے سے زیادہ عمل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم وہ تراشے ہوئے ہیرے ہیں جو ہر رُخ سے دمکتے اور چمکتے ہیں اور ہم ہیں پاکستانی اور یہی ہمارا تعارف ہے"۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں،

نظر آتی ہے ان کو منزل اپنی آسمانوں میں،

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر،

تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر۔

کیوں نہ ہم ایسی قوم بنیں جن کے ہزاروں ہاتھ ایک ہوں، ہزاروں زبانیں ایک ہوں اور ہزاروں آوازیں ایک ہوں۔ جس آواز کو نہ کوئی دبا سکے، جس زبان کو کوئی کاٹ نہ سکے اور جس ہاتھ کو ہزاروں جنگجو شکست نہ دے سکیں۔ اور ہم سب کی ہر صبح یومِ آزادی سے سرشار ہو۔

پاکستان زندہ باد!

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra