Morkha 3 April
مورخہ تین اپریل
کچھ لوگ مذہب و مسلک کے نام پر لڑتے ہیں۔ کچھ لوگ پیسوں کے لیے لڑتے ہیں۔ کچھ ذات پات کی خاطر لڑتے ہیں۔ کچھ اپنی سیاسی وابستگیوں کے سبب لڑتے ہیں۔ صرف و صرف ہم دونوں ایسے ہیں جو پورے خلوص و صدق دل کے ساتھ بنا کسی وجہ کے لڑتے ہیں۔ اور آج صرف اس سبب مجھے سننا پڑیں کہ آج مورخہ تین اپریل وہ دن تھا جس دن ہم دونوں پہلی بار آمنے سامنے زوجہ ماجدہ کے گھر ملے تھے اور موقعہ تھا رشتہ طے کرنے کا۔ بھلا اتنا اہم دن میں کیسے بھول سکتا ہوں؟
مجھے معلوم ہے کہ آپ کو اپنے نکاح یا شادی کی تاریخ تو یاد رہتی ہوگی مگر کتنوں کو اپنا رشتہ طے ہونے کی تاریخ بھی یاد رہتی ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے آج کا دن۔ اپریل کی دھوپ کھِلی تھی۔ چمکیلا دن تھا۔ جی ٹی روڈ پر رش معمول سے کافی کم تھا۔ میں خالہ کو ساتھ لیے گاڑی چلاتا اسلام آباد جا رہا تھا۔ لالہ موسیٰ کے اطراف پہنچا تو خالہ نے یاد کروایا "مٹھائی تو لی ہی نہیں؟" نونا حلوائی راہ میں آن پڑا تو بریک لگا دی۔
آٹھ دس ہزار کی مٹھائی کا ٹوکرا بنوایا۔ پھر سفر شروع ہوا۔ جہلم آتے آتے خالہ نے کہا "میں سوچ رہی تھی کہ اگر سب ٹھیک رہا اور تم مان گئے تو میں بمطابق رواج لڑکی کو انگوٹھی پہنا ہی دوں"۔ اس دن چونکہ میں اپنے تئیں خانہ پری کرنے، خاندان کو بہلانے اور شادی سے جان چھڑوانے کی غرض سے جا رہا تھا کہ پہلے یہ لڈو چکھ چکا تھا اور دوبارہ ہمت نہیں تھی۔ البتہ فیملی کو کون سمجھاتا۔
کینیڈا سے بہن کا دباؤ مسلسل تھا اور خاندان کا مسلسل ترین۔ میں نے سوچا تھا کہ چلو چکر لگا کر انکار کرتا ہوں تاکہ ان کی بھی عزت رہ جائے اور کچھ عرصہ میری خلاصی بھی ہو۔ میں نے کڑی شرط رکھ دی کہ پہلے میں لڑکی سے خود بات کرنا چاہوں گا تاکہ مجھے معلوم ہو کہ وہ کون ہے اور کیونکر ایسے بندے کے ساتھ شادی کرنا چاہے گی جس کی پہلی شادی ناکام ہوئی اور بچے بھی ہیں۔
میں نے خالہ کو کہا "اگر نہ مانا میں تو انگوٹھی ضائع ہو جائے گی۔ رہنے دو خالہ انگوٹھی کو"۔ مگر خالہ بھی شیر کی خالہ ہیں۔ لیکچر سُن کر میں نے جہلم بازار میں گاڑی ڈال دی۔ سنیار سے انگوٹھی خریدی۔ سفر پھر شروع ہوا۔ گوجر خان کے آتے آتے یکدم کینیڈا سے بہن کی کال آئی۔ اس نے مجھے شرم دلاتے کہا کہ فروٹ وغیرہ بھی لینا تھا وہ لیا؟ میں نے فون بند ہوتے ہی گوجرخان بازار میں بریک لگا دی۔ فروٹ کا ٹوکرا بنوایا۔ اسلام آباد آتے آتے میرا پچاس ساٹھ ہزار لگ چکا تھا۔ یہ تو خیر شروعات تھی۔
گھر پہنچے۔ آؤ بھگت ہو چکی تو قصہ مختصر یہ کہ بالکل بھارتی فلموں کے سین کی مانند اس کے گھر ہماری ملاقات کروانے کا بندوبست ہوا۔ اب مجھے تو ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں وہ پہلے سے ایک کرسی پر سمٹی ہوئی بیٹھی ہوئی تھی۔ کمرے میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میں صوفے پر بیٹھا تو کافی دیر چپ رہا کہ گفتگو کا آغاز کہاں سے کروں۔ آخر طویل خاموشی کے وقفے کے بعد میں نے سیدھا سوال پوچھا "آپ نے یہ رشتہ کیسے منظور کر لیا؟ آپ پر کوئی دباؤ تو نہیں؟"
جی نہیں، کوئی دباؤ نہیں۔
اچھا، پھر سوچ لیں ایک بار۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میرے بچے ہیں اور میرے ساتھ ہی رہتے ہیں؟
جی ہاں، معلوم ہے۔
اب میں یہ سن کر کافی دیر سوچ میں پڑا رہا کہ مزید کیا کہوں، ذہن الجھا ہوا تھا۔ اتنے میں اس کی آواز آئی۔
آپ کو کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرنا آتا؟
کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ اگر آپ نے پہلی شادی ڈھنگ سے کی ہوتی تو آج آپ یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔
اچھا؟ تو آپ نے کیا سوچ کر ہاں کی ہے پھر؟
سچ بتاؤں؟
جی بالکل جھوٹ کی گنجائش بھی نہیں۔
مجھے آپ کی بھولی بھالی صورت پر رحم آ گیا تھا۔
یہ سن کر مجھے جھٹکا لگا۔ مجھے اندر سے غصہ آنے لگا کہ یہ کیا بات ہوئی، مجھ پر کوئی ترس کیوں کھائے۔ میں نے فوری جواب دیا اچھا۔ اب آپ وہاں ہاں کیجییے گا جہاں رحم کی بجائے دل مائل ہو۔
میں صوفے سے اٹھا، میرا ارادہ کمرے سے نکل کر باہر جانے کا تھا اور غصہ اندر ابھر رہا تھا، دماغ کہہ رہا تھا کہ جیسے ہی اس گھر سے نکلوں گا میں صاف کہہ دو گا کہ مجھے کوئی رشتہ نہیں بنانا۔ ابھی اٹھا ہی تھا تو آواز آئی "شادی تو گھر والوں نے کسی نہ کسی سے کر ہی دینی ہوتی ہے۔ میں نے سوچا کہ کسی مکمل اجنبی سے ہو اس سے بہتر اسی سے ہو جائے جس کو کچھ کچھ پڑھ چکی ہوں۔ اور ایک بات کہ میرے والدین بھی نہیں ہیں تو چار سال سے آپی ہی میری کفالت کر رہی ہیں، مجھے لگتا ہے جتنی جلد وہ میری ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جائیں ان کو بھی خوشی ہوگی اور مجھے بھی لگے گا کہ اپنا گھر بسانا ہے۔ "
یہ سنتے ہی میں وہیں واپس بیٹھ گیا اور حیرانگی سے پوچھا کہ آپ مجھے کہاں پڑھتی ہیں؟ میری پروفائل یا پیج کو فالو کیا ہوا ہے؟
"پیج کو تو کیا ہوا ہے، پروفائل کا معلوم نہیں۔ ویسے آپ کے کچھ کالم سوشل میڈیا کے ایک گروپ میں بھی آتے ہیں تو میں اس کی ممبر ہوں۔ اکثر وہیں سے پڑھے اور میرے ہاں کرنے کی وجہ بس یہ ہے کہ مجھے آپ سلجھے ہوئے انسان لگے۔ "
یہ سن کر میں چپ بیٹھا سوچنے لگا کہ اب کیا کہا جائے۔ اتنے میں اس کی بڑی بہن کمرے میں تشریف لے آئیں تو میں نے سوچا کافی وقت ہوگیا اب چلا جائے۔ خالہ نے میری ہاں ناں جانے بنا اسے انگوٹھی جڑ دی۔ واپسی کی راہ میں مجھے ایک ایس ایم ایس آیا" آپ کو کوئی کام ڈھنگ سے کرنا بھی آتا ہے کیا؟" میں سمجھ گیا یہ جملہ کچھ دیر پہلے ہی سنا تھا۔ میں نے نمبر سیو کرتے ہوتے جواب دیا "اب کیا ایسا ہوگیا؟" جواب آیا "آپ اچانک ہی اٹھ گئے باجی تو بس یہ پوچھنے آئی تھیں کہ چائے اندر دے جاؤں یا باہر ہی سب کے ساتھ پئیں گے"۔
ان گزرے سات سالوں میں تین اپریل کا مہنگا دن دراصل مجھے کافی سستا پڑا ہے۔ ان سات سالوں میں مالی طور پر کافی اتار چڑھاؤ آئے اور یہ مجھے حوصلہ دیتی رہی کہ یہ وقت گزر جائے گا۔ جس نے برے وقت میں ساتھ نبھایا ہو وہی آپ کے اچھے وقت میں آپ کی جانب سے ہر قسم کی آسائش کا حقدار ہوتا ہے۔ گرہستی کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ نوک جھونک معمول ہوتا ہے۔ اب تو یوں ہے کہ جس دن بیگم کی ترکش سے کوئی تیر نہ آئے مجھے لگتا ہے جیسے کچھ ادھورا پن ہے۔