Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Mera Bachpan, Meri Kahani

Mera Bachpan, Meri Kahani

میرا بچپن، میری کہانی

آج سے تین دہائیاں قبل جب میں ننھا مُنا بچہ ہوتا تھا تو میرے کھیلوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل کیل ٹھوکنا ہوتا تھا۔ پہلے پہل میں نے گھر کے ہر فرنیچر کو کیل ٹھوک ٹھوک کر برباد کیا۔ ردِعمل میں ابا جی سے وہ مار کھانا پڑتی کہ میری ماں بھی روتی رہ جاتی پر مار نہیں ختم ہوتی تھی۔

گھر میں ہتھوڑی اور کیل ابا جی نے سخت پہرے میں رکھ دیئے لیکن کسی نہ کسی طرح دن کو جب وہ گھر نہیں ہوتے تھے میں نکال لیتا۔ جب مار کا ڈر زیادہ پیدا ہونے لگ گیا تو گلی میں نکل کر گلی کی اینٹوں میں یا ہمسائیوں کی دیواروں میں کیل ٹھوکتا تھا اور جواب میں ہمسائیوں کے گھروں سے جو آوازیں آتیں وہ ظاہر ہے یہاں میں بیان نہیں کر سکتا۔

کچھ عمر بڑھی تو کھیل بھی تبدیل ہوگیا۔ کیل ٹھوکنے کے بعد جو کام مجھے اچھا لگا وہ بنٹے کھیلنا تھا۔ ساری دوپہر یہی کھیل چلتا رہتا اور گلیوں میں کھدیاں کھود کھود کے اردگرد کی ساری گلیاں ہی سوراخ بریدہ بنا دیں تھیں۔ میرے والدین اتنے پریشان ہوتے کہ وہ اکثر کہتے تھے یہ پڑھنے والا بچہ ہی نہیں، یہ ہمارا نام خراب کرے گا۔ میرے سکول کے ہیڈ ماسٹر سے لے کر سارے اساتذہ کی یہ محکم رائے تھی کہ شاہ جی میٹرک بھی کر گئے تو معجزہ ہے مگر میں ہر امتحان میں یہ معجزہ کر دکھاتا تھا اور میٹرک میں تو میں سکول میں پہلی اور بورڈ میں تیسری پوزیشن لے گیا۔

بنٹوں سے دھیان ہٹا تو کرکٹ نے اس کی جگہ لے لی۔ کرکٹ میں آوٹ ہونا میں نے نہیں سیکھا تھا۔ ایسا ڈھیٹ قسم کا بیٹس مین رہا ہوں کہ جس کو طوفانی باؤلرز بھی کبھی کلین بولڈ نہیں کر سکے۔ کرکٹ سے لگاؤ شدید قسم کا ہوا۔ ابا جی کی پھینٹی بھی جاری رہی کہ ان کو عادت پڑ چکی تھی اپنے اکلوتے بیٹے کو کلین بولڈ کرنے کی۔

کرکٹ کو محلے کی ایک لڑکی نے چھڑوا دیا۔ کرکٹ چھوڑ کے میں نے خط و کتابت شروع کر دی۔ اللہ بھلا کرے اچھی لڑکی تھی۔ میری اردو بھی اچھی کر گئی اور شاعری کا ذوق بھی۔ چلتے چلتے بیچ والی زندگی جو میٹرک سے لے کر یونیورسٹی تک کی ہے وہ ساری سینسرڈ ہے، بس فوٹوگرافی اور سفر ہی شوق رہ گیا تھا اور اب یہ ہے کہ صرف اپنی جاب پر فوکس ہے کہ "تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے"۔ اب نہ کیل ٹھوکے جا سکتے ہیں، نہ بنٹے، نہ کرکٹ کھیلی جا سکتی ہے اور نہ عشق ہوتا ہے۔ بڑی خواری ہوگئی۔

اگر آپ مڈل کلاس میں پیدا ہوئے ہیں تو کئی چیزیں چاہتے ہوئے بھی آپ ساری عمر نہیں بدل سکتے۔ جس ماحول میں انسان پلا بڑھا ہوتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی عادت ساری عمر ساتھ چلتی رہتی ہے۔ مڈل کلاس گھرانوں میں صرف بیوی ہی دماغ کی لسی نہیں بناتی بلکہ ماں بھی کچھ کم نہیں ہوتی۔ آپ نہ بیوی کے ساتھ بحث کر سکتے ہو اور ماں کے ساتھ بحث کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مڈل کلاس میں کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں آپ کہیں بھی چلے جاؤ کبھی نہیں بدلتیں۔ جیسے میں آج تک اپنے کپڑے ایک نمبر بڑے خریدتا ہوں۔ ماں بچپن میں ایک سائز بڑا لے کر دیتی تھی کہ اگلے سال بھی پورا آنا چاہیئے۔ جب کپڑے نئے ہوتے تھے تو ڈھیلے ہوتے تھے اور جب تک پورے آتے تھے گھس جاتے تھے۔ سب سے برُا حال ہوتا تھا اسکول کی پینٹ کا، آپ کلاس پاس کر جاتے تھے مگر پینٹ کا بجٹ نہیں پاس ہوتا تھا۔ ماں کیا کرتی تھی؟ دو انچ پوہنچے کھول دیتی تھی، پیچھے سے کمر۔

میری خاکی رنگ کی پینٹ ہوتی تھی، پیچھے سے اتنا بڑا V بن جاتا تھا اور جب ماں کو کہتا کہ امی یہ پہن کر جاؤں گا تو عجیب لگے گی۔ ماں وہی پینٹ اٹھا کر کہتی "کہاں؟ پتا بھی نہیں چل رہا"۔ آپ زیادہ بحث کرو تو جواب آتا "میں تیری ماں ہوں آئی سمجھ، میں جھوٹ بولوں گی؟" سارا سال اسی سوچ میں گزر جاتا کہ ماں پر بھروسا کروں کہ پینٹ پر۔ آپ یقین مانیں زمانے میں جدت آنے کے باوجود میں کبھی سلم فٹ شرٹ یا سلم فٹ پینٹ نہیں خرید سکا، ذہن میں وہی اٹکا ہوتا ہے کہ ایک نمبر بڑی لے لو، اگلے سال تک چل جائے گی۔

مڈل کلاس گھر میں ایک الماری ایسی ضرور ہوتی ہے جو ماں کے جہیز میں آئی ہوتی ہے۔ اس الماری کے ایک خانے میں دنیا جہاں کے پیپرز ماں محفوظ رکھتی تھی سوائے نیوز پیپرز کے۔ جب شیشے صاف کرنے کی باری آتی تو ماں کہتی "جا ذرا ساتھ والوں سے پرانی اخبار تو لے کر آ"۔ اس الماری میں سے ایک دن میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ نکلی۔ میں نے ماں کو کہا "امی یہ آخر کیوں سنبھال کر رکھی ہے اس کی اب کیا ضرورت؟" ماں کا جواب آیا "کیا پتا کونسا کاغذ کب کام آ جائے، تجھے کیا مسئلہ ہے؟"

میں نے اپنا گھر بدلا تو ماں کے جہیز کی وہ الماری جو دیمک سے اتنی بوسیدہ ہو چکی تھی کہ ذرا سا ہلانے جلانے پر خدشہ پیدا ہونے لگتا مبادا کہیں جھڑ کر اوپر ہی نہ آن پڑے۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ وہ الماری کسی کو دان کر دی۔ نئے گھر میں نئی الماری میں اب میں وہ کاغذ بھی سنبھال کر رکھتا ہوں جس میں میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ سمیت وہ پرچیاں بھی شامل ہیں جن میں مجھے لگنے والے حفاظتی ٹیکوں کی تفصیلات موجود ہیں جب میں دو سال کا بچہ ہوتا تھا۔ اور جب جب میں نے ان کاغذات کو تلف کرنے کی ہمت پکڑی تب تب مرحومہ ماں کا چہرہ دُکھی لہجے کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا اور کانوں میں ماں کی آواز آنے لگتی "تجھے کیا پتا، پتا نہیں کونسا کاغذ کب کام آ جائے"۔

پکی عُمرے آ کے بندہ

ہور طرح دا ہو جاندا اے

ہور طرحاں دیاں خوشیاں ہوندیاں

ہور طرح دے غم

ہور طرح دی فُرصت ہوندی

ہور طرح دے کم۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir