Long Exposure Photography
لانگ ایکسپوژر فوٹوگرافی
برس گزرے جب ایک نوجوان نے فوٹوگرافی کو مشغلہ بنایا۔ سفر اور فوٹوگرافی دل بہلانے کا بہانہ تھے۔ یوٹیوب تو چلتی نہیں تھی۔ ڈائل اپ موڈیم کا زمانہ تھا۔ انارکلی لاہور کے فٹ پاتھ پر بکتے لنڈے کے رسالوں کو خریدنے سیالکوٹ سے لاہور آتا۔ فوٹوگرافی سے متعلقہ اکا دکا رسالے ہی ملا کرتے اور انہی اکا دکا رسالوں میں چھپی لانگ ایکسپوژر فوٹوگرافی دیکھ کر سوچتا رہتا کہ یہ کیسے کر لیتے ہیں۔ میں بھی کروں گا۔
سنہ 2004 میں نائیکون کا ایف فائیو فلم کیمرا ہوتا تھا جس سے لانگ ایکسپوژر فوٹوگرافی کرنا محال ہوا کرتا۔ فلم زیادہ دیر ایکسپوز نہیں رہ سکتی تھی۔ نیا نیا ڈیجیٹل آنا شروع ہوا تھا۔ کوڈیک کا 1۔ 6 میگاپکسل کا پوائنٹ اینڈ شوٹ کیمرا بڑی مشکل سے پیسے جوڑ جاڑ کر خریدا مگر وہ بھی لانگ ایکسپوژر تکنیک میں ناکام رہا۔ اماں نے آوارگی کے شوق کو دیکھتے ہوئے پہلے اس جوان کو خوب ڈانٹا۔ اماں کو فکر تھی کہ کہیں ان کا اکلوتا سپوت اسی شوق میں پڑھنے لکھنے سے دور نہ ہو جائے۔ پھر ایک دن اماں کو نجانے کیا خیال آیا۔ نوے ہزار روپے کیسے تیسے کرکے اماں نے ہتھیلی پر رکھتے کہا "تو نے جو لینا ہے لے لے مگر اس کے بعد ایک پائی بھی نہیں ملے گی"۔
اس رقم سے نائیکون کا چھ میگا پکسل ڈیجیٹل D40 آیا۔ لینز کے آگے لگنے والا ND فلٹر آیا۔ اس دن اور آج کے بیچ انیس سال گزر چکے ہیں۔ ان سالوں میں وہ جوان بڑا ہوتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ کمانے لگا تو بہترین کیمرے بھی خریدنے کے قابل ہوا۔ ان انیس سالوں میں ایک بات لانگ ایکسپوژر فوٹوگرافی سے سمجھ آئی کہ دنیا وہ بھی نہیں جو ننگی آنکھ سے نظر آتی ہے۔ ایک حقیقت تو آنکھ اوجھل بھی ہے۔ ستارے گردش میں نہیں دھرتی گردش میں ہے۔ پانی اگر تھم جائے تو جھیل کی تہہ بھی دکھانے لگتا ہے۔ بادل حرکت کرتے دھوئیں کی لکیر سے دِکھتے ہیں۔
یہ شوق مجھے جنگل، بیابان، دشت و صحرا، ندی نالوں، جھرنوں و وادیوں میں پھراتا رہا۔ وادیوں میں جہاں لوگ سر شام گھروں میں مقفل ہو جاتے ہیں میں کیمرا اٹھائے بستیوں سے دور نکل جاتا۔ صبح جب نیند سے سرخ آنکھیں لیے واپس اپنے ٹھکانے پر آنا ہوتا تو میرے میزبان مجھے دیکھ کر پہلے حیران ہوتے پھر ہنسنے لگتے۔ ان کی ہنسی ویسی ہنسی ہوتی جو کسی دیوانے کی حرکات پر از خود نکل آتی ہے۔
انگنت منظر میری آنکھ سے گزرے ہیں۔ بیشمار لمحات ایسے ہیں جو میں کیمرے میں قید نہیں کر پایا۔ سمندروں، جھیلوں، وادیوں، پہاڑوں، ندی نالوں، صحراؤں اور شہروں میں کئی منظر ڈوبے ہیں۔ جب میرا بلاوا آئے گا اور آخری سانس سے ذرا قبل انہی مناظر میں سے نجانے کونسا منظر میرے سامنے چلتا چلتا اچانک رک جائے گا۔
ان سالوں میں اماں سمیت کئی لوگ مٹی اوڑھے سو چکے ہیں۔ ان سالوں میں میری زندگی کافی بدل چکی ہے۔ شمال بدل چکا ہے۔ لینڈ اسکیپ بدل رہا ہے۔ کنکریٹ وادیوں کو کھا رہا ہے۔ کمرشل ازم اور ٹورازم نے قدرتی حُسن کو گہنا دیا ہے۔ کبھی کبھی میں اپنی تصاویر دیکھ کر سوچتا ہوں کہ میرا بیٹا جب بڑا ہوگا وہ یہ سب دیکھ بھی سکے گا یا اپنے باپ کی تصویروں کو افسانوی سمجھ کر خوش ہوتا رہے گا۔