Hawa Hi Abdi Haqeeqat Hai
ہوا ہی ابدی حقیقت ہے
شمال کے پہاڑوں پر دو موسم ہیں جو مجھے بلاتے ہیں۔ پہاڑوں پر خزاں کا موسم میرے مزاج سے ملتا جلتا ہے اس لئے مجھے خزاں ہر سال بلاتی ہے۔ رنجیت سنگھ کی حکومت، میرے مزاج اور خزاں کی ہوا میں کافی قدریں مشترک ہیں۔ خزاں کی ہوا ایک طرح سے انتشار کا موسم ہے گویا ذہن میں کوئی لفظ گھوم رہا ہو لیکن ہونٹوں پر نہ آنے پائے۔ گھروں میں داخل ہونے والوں کے لباس پر خشک پتے، کھڈوں اور نالوں کے پانیوں کے کنارے ٹھہرے کیسری براؤن پتے، بچوں کے بستروں کے اندر باہر پتے، سڑکوں پر سسکتے، سرسراتے چھوٹے بڑے خشک پتے، کھڑکیوں اور جالیوں میں اٹکے پتے، بجلی کی تاروں پر ٹنگے ہوئے اور گیلے کپڑوں سے لپٹے پتے۔
جا بجا پتوں سے سرسراتی آوازیں رات کے وقت کھُلے برآمدوں میں مدھم ہواؤں میں ٹین کی چھتوں پر ایسی مخلوق کا سراغ دیتی ہیں جو روشنی میں نظر نہیں آتی۔ چنتا کا موسم، ہراساں سی کیفیت، بادلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا بھی ایک رنگ آتا اور جاتا ہے۔ بہار میں شگوفے اور کلیاں فطرت میں تسلسل پیدا کرتی ہیں، بات سے بات چلتی ہے۔ سردیوں میں بھی برف اور بارش ایک تواتر کا باعث ہوتی ہے۔ برساتیں کھُل کے برسیں یا کن من کی شکل میں ہوں ہریالی ہر سُو بکھر جاتی ہے لیکن خزاں سب موسموں سے کٹا ہوا موسم ہے۔ اس میں حزن و ملال، یاس و خوف کی کیفیت غالب رہتی ہے۔
پھر تیز ہوائیں چلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ قاتل ہوائیں شجر و حجر کو بے لباس چھوڑ جاتی ہیں۔ اداس بچے، گم صم بزرگ، سنجیدہ مزاجی سارے لینڈ اسکیپ پر چھائی نظر آتی ہے۔ تھم تھم کے بہتے پانی، دھیمی دھیمی گرتی آبشاریں، آہستہ آہستہ سمٹ کر چلتے مرد و عورتیں، ہولے ہولے منماتے جانور۔ صرف ہوا ہے جو تیز رو ہے جس کی کاٹ شجر و ہجر کو کاٹتی جاتی ہے۔ صرف ہوا ہے جس کا راگ اپنے اونچے اور آخری سُروں پر ہوتا ہے۔ صرف ہوا ہے جس کی دہشت سے وادیاں پیلی پڑ جاتی ہیں۔
ہوا ہے بس ہوا۔ تیز ہوا۔ جو پتوں کو درختوں سے جدا کرتی اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ موت کا جشن سیٹی بجا کر مناتی چلی جاتی ہے۔ تیز ہواؤں کے موسم میں ہوا ہی واحد ہے جس کی آواز صاف اور اونچی سنائی دیتی ہے۔ پہلے یہ بادلوں کو دھکیلتی آسمان کو ڈھانپتی ہے اور پھر بادلوں کی کالی چادر تلے اپنے نوکیلے پنجوں سے حملہ آور ہو جاتی ہے۔ گھیر کر مارتی ہے۔ انسانوں کو ملول اور درختوں کے بے لباس کر کر چھوڑ جاتی ہے۔ گم صم باقی بچے انسان اور ننگے درخت۔ لینڈ اسکیپ پر موت کا سایہ۔ دہشت کا موسم۔
ان ہواؤں کے گزر جانے کے بعد آہستہ آہستہ زندگی وادیوں میں لوٹنے لگتی ہے۔ شہر پھر بسے دیکھو۔ لوگ پھر ہنسے دیکھو۔ لمبی سردیاں گزار کر اپریل میں شجرِ بادام پر پھول کھِلتا ہے۔ رونق لوٹنے لگتی ہے۔ زندگی لاوے کی صورت بہنے لگتی ہے۔ اگلے چند ماہ کے لئے ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اندھی منہ زور قاتل ہواؤں کے آنے تک زندگی کا ہما ہمی جاری رہتی ہے۔ مگر ہوا کا انتقام بھی اندھا ہے۔ یہ ایک بار پھر گھات لگا کر وار کرے گی۔ اگلے اکتوبر میں۔
رُت بدلتی ہے۔ پہاڑوں پر سورج کی حدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ برفیں پگھلنا چاہتی ہیں۔ کھیتوں کو تیار کرنے کا موسم آیا چاہتا ہے۔ یہ بہار ہے۔ پھلدار پیڑوں کی شاخیں پھولوں کے بوجھ سے جھُکی رہتی ہیں۔ سخت سرما گزار کر شمال کے لوگ دھوپ سینکتے ہیں۔ گلیوں میں رونق رہا کرتی ہے۔ چیری، خوبانی، بادام اور سیب کے درخت ڈیکوریشن پیس سے بن جاتے ہیں۔ شمال میں بہار موسم زندگی کی علامت ہے۔ پنجاب کے شہروں کی دھواں بھری فضا سے میں تھک جاتا ہوں تو گلگت بلتستان کو چل دیتا ہوں۔
ہر روز منظر بدلتا ہے۔ وہی گلی ہوگی مگر ہر روز نیا نظارہ دکھائے گی۔ کبھی دھوپ چھاؤں کے کھیل میں لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں تو کبھی کن من لگ جاتی ہے۔ ہر صبح نیا پیڑ دِکھتا ہے۔ کبھی وہ اپنی کلیوں کی پوشاک اوڑھتا ہے تو کسی دن اچانک پھول پہن لیتا ہے۔ خزاں ہو کہ بہار۔ یہ چند دن کے مہمان موسم ہیں۔ میں نے جانا تو یہ جانا کہ ہوا ہی ابدی حقیقت ہے۔
کہتے ہیں عالمِ بالا میں ایک بہت پھیلاؤ والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے، جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مُرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں اور اسی طرح نیچے دنیا میں، جہاں فنا کو قیام ہے، فانی انسان مرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو ہوا کی آواز میں موت کی ندا سنائی دیتی ہے جو عالمِ بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں کے پتے گراتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں، محبتوں اور شکستوں میں ہوا کا ہاتھ ہے۔ ہوا کا سدا بول بالا رہے۔
ہوا ہی خوشبوؤں اور سُروں کو پھیلاتی اور مٹاتی ہے۔ ہوا میں ہی نوحے اور زخم خوردگی کی ایسی کیفیت ہے جو تمام انسانی دُکھوں سے ماورا ہے۔ پورے چاند کی رات میں جب چاند بھی اُفق پر گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ہوا بادلوں کے ٹکرے دھکیلتی پھرتی، چاند کو ڈھانپتی کھولتی رہتی ہے۔ اندھیرے اُجالے کے کھیل کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ نہ تم حقیقت ہو نہ میں۔ حقیقت صرف ہوا ہے جو ابتدا سے سفر میں ہے اور انتہا تک جس کا جھونکا سفر کرتا رہے گا۔