Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Fitrat Nahi Badalti

Fitrat Nahi Badalti

فطرت نہیں بدلتی

میں یہ تو نہیں جانتا کہ احساس کا پیمانہ کیا ہے اور نرم دلی آج کے دور میں عطیہ خداوندی ہے یا زحمت۔ مگر میں نے کئی لوگ دیکھے ہیں جو احساس کی دولت سے مالا مال مگر اسی رحم دل فطرت کے سبب تنگ بھی ہونے لگتے ہیں اور اپنی تنگی کو ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ انسان میں احساس کا تعلق کسی مذہب سے وابستہ نہیں۔ یہ تو بس فطرت ہے اور فطرت سب مذاہب کی مشترکہ میراث ہے۔

کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کسی بھی ادارے کا ایسا ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں کام کرتے لوگوں کا عوام الناس سے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطہ رہتا ہے۔ Coms ڈیپارٹمنٹ میں میری ایک کولیگ ہے جس کا نام ہے لِز (Liz)۔ لِز کا اصل نام شاید الزبتھ ہو مگر نہ کبھی کسی نے پوچھا نہ اس نے بتایا۔ سب اسے لِز ہی پکارتے ہیں اور میں بھی۔ لِز کا اصل وطن آئرلینڈ ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان میں تین سالوں سے تعینات تھی۔ فارنرز کی پوسٹنگ دو سے تین سال کے لیے ہوا کرتی ہے اور پھر ان کو کسی اور ملک بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ یو این کا کلچر ہے۔ آج جب میں لِز کے بارے لکھ رہا ہوں تو اس کی رخصتی کا پروانہ اسے مل چکا ہے۔ وہ پاکستان سے جا رہی ہے اور اس ملک کو چھوڑتے ہوئے اداس ہے۔

لِز کو ادارہ مشن پر بھیجتا۔ اس کا کام پولیو سے متعلقہ امور و مسائل پر تبادلہ خیال کرنا۔ کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز، محکمہ صحت کے افسران اور پولیو اہلکاروں سے ملاقاتیں کرکے انتظامی مسائل سلجھانا ہوتا۔ میں جب فیلڈ مشن پر اس سے ملتا تو اکثر اوقات یہ فیلڈ وزٹ کرنے کو مجھ سے پوچھتی کہ کہاں کوریج کر رہے ہو؟ میں بھی دیکھنا چاہوں گی۔ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے اندرون کام کرتے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں۔ رفتہ رفتہ لِز سے دوستی کا تعلق بنتا گیا۔

ہمارے ہاں غربت نے ایسے ایسے المئیے جنم دئیے ہیں کہ جن کو دیکھ کر کئی بار مجھ سے نوالہ نہیں نگلا جاتا۔ فیلڈ میں کام کرتے لِز بہت جذباتی رہا کرتی تھی۔ ایک بار بلوچستان نوشکی میں وزٹ پر آئی۔ مقامی بچوں کے حالات دیکھ کر جذباتی ہوگئی۔ مجھے آ کر کہنے لگی "مہدی کیا تم ان بچوں کے جوتوں کا بندوبست کر سکتے ہو؟ یہ گرم ریت پر ننگے پاؤں کیسے چل لیتے ہیں؟ ان کی حالت دیکھی ہے؟

تم ایسا کرو ان کے سردار کو تیس ہزار دے دو اور ان کو کہو کہ سب بچوں کے جوتے و کپڑے کوئٹہ سے منگوائیں"۔ میں نے یہ سُن کر کہا "اچھا پیسے تو دے دوں مگر لِز ان کے ہاتھ دینا بہتر نہیں لگ رہا۔ یہ کسی اور کام میں خرچ سکتے ہیں اور بچے جوں کے توں رہ جائیں گے۔ " اس نے سُن کر جواب دیا کہ کچھ بھی کرو بس کرو۔ ہم نے نوشکی کے مقامی ہیلتھ آفیسر کے ذمے یہ کام لگا دیا۔ ان کو پیسے دے دئیے۔

اسی طرح کئی بار ایسا ہوا کہ وہ میرے پاس آ کر کہتی کہ اتنے پیسے دے دو میں تنخواہ آتے ہی تم کو دے دوں گی۔ کئی بار میں نے اسے سمجھانا چاہا کہ لِز تم بہت حساس ہو مگر اس طرح تم جیسے تنخواہ لٹاتی ہو تم کو کچھ کنٹرول کرنا چاہئیے۔ وہ ہر بار سوچتی اور کہتی ہاں ٹھیک کہتے ہو۔ کبھی کبھی میرے پاس اپنی ضرورتوں کے لیے پیسوں کی کمی ہو جاتی ہے مگر وہ ہے نہ کہ فطرت نہیں بدل سکتی۔ ہر بار وہ پھر وہی کچھ کرتی۔ یوں نہیں کہ مجھے ہی آ کر کہتی۔ دوسرے کولیگز کو بھی کہتی جو پاکستانی ہوتے۔

ایک بار اس نے مجھے ایک لاکھ اکیس ہزار بھجوائے اور یہ سب اس نے ایک ماہ کے اندر مجھ سے خرچ کروائے تھے۔ تنخواہ آنے پر مجھے لوٹا دیتی۔ دادو میں پانی کے واسطے بورنگ کرکے نلکا لگوایا۔ واٹر چینل کی مرمت کروائی۔ کبھی کسی کو سویٹر لے کر دئیے اور کبھی بچوں کے جوتے۔ وہ جہاں جاتی ادارے کا کام بھگتا کر فیلڈ وزٹ کرتی اور پیسے لگا آتی۔ ان تین سالوں میں اس نے اپنی تنخواہ کا ایک تہائی یونہی خرچ کیا ہے۔ مجھے اس کے جانے کی خوشی بھی ہے کہ یہ ایک طرح سے اس کی پروموشن کا سبب بن رہا ہے اور دوسری جانب دکھ بھی ہے کہ لِز جیسے انسان ان معاشروں سے کوچ کر جائیں تو ان معاشروں کو فرق پڑتا ہے۔

فون پر بات کرتے بولی "میری کوشش تھی کہ پاکستان میں وقت مکمل ہوگیا تو مجھے بھارت بھیج دیں وہاں بھی ایسے ہی حالات ہوتے ہیں مگر مجھے جینیوا بھیج دیا ہے۔ " میں نے موڈ لائٹ کرنے کو کہا "اچھا ہے وہاں تنخواہ سیو ہو جایا کرے گی"۔ بولی "ہاں، میں پھر بھارت کی کوشش کروں گی یا نیپال کی"۔ فون بند ہوا تو مجھے خیال آیا فطرت نہیں بدلتی اور ایسی فطرت کبھی بدلنی بھی نہیں چاہئیے۔

Check Also

Samajhdar Hukumran

By Muhammad Zeashan Butt