Asaib Zada Maqamat
آسیب زدہ مقامات
گلگت سے ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع وادی نلتر اپنی رنگین جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے، یہاں دنیا کا بہترین آلو بھی کاشت ہوتا ہے۔ نلتر غیر مرئی مخلوق کا بھی مسکن ہے اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو جھیل کی راہ میں پڑتے جنگلات میں رات گزار کر دیکھ لیں۔ چند سال قبل رات میں فوٹوگرافی کرتے میرے اور میرے ہمسفر فوٹوگرافر اثمار کے کیمروں اور موبائلز کی سکرینیں فلک کرتی تھیں۔
ہم نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا لیکن پھر جنگلات سے کچھ عجیب آوازیں آنا شروع ہوئیں جو بڑھتی ہی گئیں۔ ہمارے گائیڈ کریم نے جو نلتر کا ہی رہنے والا تھا بارہ بور کی رائفل اٹھائی اور جنگل کی طرف فائر کر دیا۔ واپس اپنے گھر میں پہنچ کر بھی چین نہیں ملا، یہ گھر جنگلات میں واقع ہے اور نلتر کی آبادی سے کافی دور جھیل کے قریب ہے۔ ساری رات ہمارے گھر کی ٹین کی چھت پر سنگباری ہوتی رہی، بار بار پتھر لگتے تھے اور ان کی آوازوں سے ساری رات ہم نہیں سو سکے تھے۔
اگلی صبح جب جھیل پر پہنچ کر میں فوٹوگرافی کر رہا تھا تو میرا کیمرا فلٹر میرے ہاتھ میں پکڑے پکڑے میری آنکھوں کے سامنے چکنا چور ہو کر گر گیا۔ اسی نلتر کی جھیل میں اس سے پچھلے سال میرا کیمرہ ڈوب گیا تھا۔ کنارے پر بیٹھا ٹرائی پوڈ پر لگا کر شوٹ کر رہا تھا کہ اچانک کیمرہ پانی میں ٹرائی پوڈ سمیت چلا گیا۔ اگلے سال پھر نلتر میں اسی مکان میں ٹھہرے۔ پچھلے سال کی باتیں یاد کرتے ہوئے ہنس رہے تھے۔ ہم کل آٹھ لوگ تھے۔ باقی لوگ میری باتیں سن کر محظوظ ہو رہے تھے اور کچھ دیر بعد آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو ڈرانے لگے۔
اس نان سیریس ایکٹ پر میں نے منع بھی کیا لیکن کسی نے نہیں سُنی۔ آدھی رات کے قریب جب ان کا شور اور عجیب آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو ڈرانا حد سے بڑھ گیا تو پھر پہلے ٹین کی چھت پر پتھر گرنا شروع ہوئے اور دروازے بجنے لگے۔ سب اپنی جگہ لیٹے لیٹے سُن ہو گئے تھے۔ کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ کچھ بولتا۔ کلمے پڑھنے لگے۔ رات سنگباری ہوتی رہی۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو باہر کھڑی ہماری جیپ کے بونٹ اور چھت پر پتھر پڑے تھے۔
نلتر میں ہی ایک بار میرے ساتھی اسمار کا کیمرہ اس کے گلے میں لٹکا ہوا تھا کہ اچانک گر پڑا اور سکرین ٹوٹ گئی۔ ہم حسب سابق جنگل میں شوٹ کر رہے تھے لیکن اس بار تو دن کو کام کر رہے تھے۔ جو احباب نلتر جانا چاہتے ہیں ان کے گزارش ہے کہ شام سے پہلے نلتر کے گاؤں میں واپس آ کر ٹھہریں۔ جن کو یہ محظ کہانی معلوم ہو رہی ہے وہ اپنی مرضی کریں۔ اس کہانی کے آٹھ گواہ ہیں، پچھلی بار کے تین تھے اور اس سے پچھلی بار کا ایک گواہ تھا۔ سارے ہی فیس بک پر موجود ہیں۔
چلم چوکی سے نکلتے استور کی جانب سفر کرتے تنگ سی سڑک دورویہ چیڑ کے درختوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ مقام یہ سڑک بھی شام کے بعد سنسان ہو جاتی ہے اور یہ مقام بھی ڈراؤنا ہے۔ اس سڑک کے بارے مقامی لوگ آپ کو کئی کہانیاں سنائیں گے مگر میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ رات کے 10 سے 11 کے بیچ میں اس سڑک پر جیپ میں سفر کر رہا تھا۔ ہم دو لوگ تھے۔ اچانک پہاڑ سے انسان نما کوئی شے لمبا سا سفید گاؤن پہنے اتنی برق رفتاری سے اتری کہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں تھی اور عین سڑک کے بیچ آ کر کھڑی ہوئی۔ جیسے ہی ہمارے اوسان خطا ہوئے تو میرے ڈرائیور نے اللہ اکبر کا نعرہ باآواز بلند کیا اور جیپ بھگا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انسان سڑک کے بیچ میں ہی غائب ہوگیا۔
راما میڈوز کے جنگلات بھی آسیب زدہ ہیں۔ گرمیوں میں سیاحوں کا رش ہوتا ہے۔ باربی کیو پارٹیز اور کیمپنگ چلتی رہتی ہے۔ آف سیزن میں جب رش ختم ہو جاتا ہے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اسی میڈوز میرے پیچھے سورج نکلنے سے پہلے جب میں فوٹوگرافی کر رہا تھا ایک ہوا کا بگولہ آیا اور میرے اطراف گھومنے لگا۔ میں نے ڈر کر اپنا ٹرائی پوڈ اٹھایا اور بھاگ نکلا مگر وہ بگولہ جہاں جہاں میں بھاگتا میرے پیچھے پیچھے لگا رہا۔
وہ ایک چھوٹا سا بگولہ تھا جیسے ہمارے ہاں اکثر پنجاب میں بھی ہوا کا چکر سا چلتا ہے۔ اس نے میرا تعاقب میرے موٹل تک کیا۔ جب موٹل پہنچا جو محکمہ جنگلات کا راما میڈوز کے شروع میں ہی بنا ہوا ہے تو موٹل چوکیدار نے میری حالت دیکھ کر مجھے قصے سنانا شروع کیئے اور میں سنتا رہا۔ اتنے میں سورج نکل آیا تھا۔ راما کا میدان سنسان تھا۔
گلگت اسکردو روڈ پر رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس کی وجہ زمانہ قدیم سے مقامی لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھی وہ ڈراؤنی کہانیاں ہیں جو سینہ بہ سینہ ان تک پہنچی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک تو بالکل تنگ اور بل کھاتی سڑک ہوا کرتی تھی۔ نیچے ساتھ ساتھ دریائے سندھ چلتا رہتا ہے۔ مقامی لوگ اس سڑک پر رات کو انتہائی مجبوری میں سفر کرتے ہیں۔ ٹرک والے رات گزارنے کو جگلوٹ کے مقام پر رک جاتے ہیں مگر اب اکا دکا کوئی کوئی ٹرک رات کو بھی سفر کر رہا ہوتا ہے۔
اس سڑک نے حادثات کی صورت ان گنت جانیں لی ہیں۔ گاڑیاں دریائے سندھ میں گر جاتی ہیں یا کوئی اور قسم کا حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ اسکردو اور راستے میں بسنے والے لوگ حادثات کی عجب کہانیاں سناتے ہیں جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ کسی مافوق الفطرت شے کے باعث یہ حادثے پیش آتے ہیں اور کئی لوگوں نے اس سڑک پر رات کو کچھ عجیب مخلوق دیکھ رکھی ہے۔ اس سڑک پر میں ساری ساری رات کئی بار سفر اکیلا گاڑی چلاتا سفر کر چکا ہوں۔ سڑک پر بنی پولیس چیک پوسٹوں پر اندراج کے واسطے ہی بریک لگا کرتی ہے۔
رات کو پولیس والے بھی چوکی میں دبکے اونگھتے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہر بار رات کو مجھے ان کے سوالات کے جوابات دینا پڑتے ہیں جن میں ایک سوال یہی ہوتا ہے کہ رات کو سفر کیوں کر رہے ہو؟ کہیں رک جاؤ صبح سفر کرو۔ اس سڑک پر گاڑی چلاتے میں نے غزلیں لگائی ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ سگریٹ کا دور چلتا رہتا ہے۔ اب جب سڑک کشادہ کرنے کا کام ہو رہا ہے تو اب رات کو کچھ فاصلے پر مشینری کھڑی نظر آ جاتی ہے مگر پہلے تو اس سنسان سڑک پر ماسوائے دریا کے شور کے نہ کچھ سنائی پڑتا تھا نہ درختوں کے علاوہ کچھ دکھائی پڑتا تھا۔
اسی سڑک پر چلتے مجھے ایک دو بار عجیب وہم ہوئے جو آج تک میں وہم ہی سمجھتا ہوں مگر اب جب غور کروں تو لگتا ہے کہ اگر میں رک جاتا تو شاید وہم یقین میں بدل جاتا۔ دمبوداس کے آس پاس مجھے لگا کہ گاڑی کے آگے سڑک پر سے انسان نما کوئی شے بائیں ہاتھ چھوٹے سے پہاڑی کھیت سے نکلی اور بجلی کی سی تیزی سے سڑک پار کرکے دائیں ہاتھ دریائے سندھ میں اتر گئی۔
پہلے پہل تو میں ایکدم ڈرا اور میں نے گاڑی کی ہائی بیم کر دی۔ گاڑی کے دروازے اندر سے لاک کر لئے۔ کافی دیر سوچتا رہا کہ یہ کیا ہوا ہے مگر وہم سمجھ کر ٹالتا رہا اور گاڑی پوری توجہ سے چلاتا رہا۔ اسی رات جب میں کچورا کے قریب باغیچہ نامی مقام پر پہنچا، میں نے ایک مرد دیکھا جس نے کاندھے پر بیلچہ اٹھا رکھا تھا اور وہ سڑک پر پتا نہیں کہاں سے اچانک نمودار ہوا۔ سڑک کے عین بیچ وہ میری جانب منہ کرکے کھڑا تھا اور ایک ہاتھ سے مجھے رکنے کا اشارہ دے رہا تھا۔
میں نے گھبرا کے گاڑی روکنے کی بجائے بالکل اس کے ساتھ سے اس کو بچاتے ہوئے گزار لی اور بیک مرر سے دیکھا تو مجھے کچھ نظر نہیں آیا جبکہ آنا چاہیے تھا۔ میں تب بھی دل کو سمجھاتا رہا کہ کوئی کسان ہوگا جو کسی وجہ سے رات کو بیلچہ لے کر کام کر رہا ہوگا مگر پھر سوچوں تو یہ سوچ آتی تھی کہ رات کے سوا تین بجے کسان کا کیا کام ہو سکتا ہے۔
یہ دونوں واقع ایک ہی رات کے ہیں۔ اس کے بعد بھی میں اسکردو روڈ پر رات کو کئی بار سفر کر چکا ہوں اور آگے بھی جانا ہوا تو ایسے ہی سفر کرتا رہوں گا۔ یہ وہم کبھی کبھی سچ میں ڈرانے لگتے ہیں۔ اس وقت انسان وقتی طور پر ڈرتا تو ہے مگر پھر بھول جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پہاڑوں میں ویرانوں میں جنگلوں میں تنہا انسان ویسے ہی وہم کا شکار ہو جاتا ہے یا اگر کوئی اور مخلوق ہوتی بھی ہے تو وہ صرف انسان کو ڈرانا چاہتی ہے کہ انسان اس کے علاقے سے نکل جائے۔
سونے سے پہلے مجھے اپنی سفری یادیں آتی رہتی ہیں اور پھر انہی یادوں میں نیند آ جاتی ہے۔ کچھ آپ کے ساتھ یہاں شیئر کر دیتا ہوں کچھ کالموں کی صورت میڈیا میں چھپ جاتے ہیں اور بہت کچھ ایسا ہے جو صرف میرا ہے اور ذہن کے پردے پر فلم کی صورت چلتا رہتا ہے جو قلمبند نہیں ہوا۔ پورے چاند کی رات میں قراقرم ہائی وے پر سفر کرنا ایک طلسماتی دنیا کا سفر لگتا ہے۔ اب جب قراقرم ہائی وے سیکیورٹی کے حوالے سے مکمل محفوظ ہو چکی ہے کبھی آپ بھی تنہا سفر کرکے دیکھئے گا۔