Saturday, 27 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Shabir
  4. Ram Mandir

Ram Mandir

رام مندر‎‎

عرب دنیا میں حرمت رسول کی حرارت اور ہندو انتہا پسندی کے خلاف دینی غیرت کے مظاہرے نے دنیا کو حیران کر رکھ دیا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں جو کچھ روز پہلے تک بی جے پی ترجمان نوپور شرما کی حمایت کر رہے تھے۔ انہوں نے دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ہے۔ حکومتی پارٹی کی مرکزی ترجمان کو برطرف کر دیا گیا ہے اور چند رہنماؤں کے خلاف کارروائی بھی ہو رہی ہے۔

دوسری جانب عرب دنیا کا ردعمل قابل رشک رہا۔ قطر۔ کویت۔ سعودی عرب نے بھارتی سفیروں کو طلب کرکے احتجاج کیا۔ بڑے سٹورز سے بھارتی اشیاء ہٹا دی گئیں۔ کوڑے دانوں پر مودی کی تصاویر لگیں اور عرب سوشل میڈیا پر کئی دن سے یہ ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے۔ بھارت کے لیے خلیجی ممالک کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے صرف دو پہلو سمجھ لیں تو آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔

آر ایس ایس کا بیرون ہندوستان ونگ "ہندو سویم سیوک سنگھ" کے نام سے ہے۔ مشرق وسطیٰ میں انتہائی متحرک ہے۔ تحقیقاتی کی رپورٹ کے مطابق خلئجی ممالک میں آر ایس ایس کی سات شاخیں متحرک ہیں۔ بھارتی مصنف اور قانون داں اے جی نورانی نے اپنی کتاب The RSS: A Menace to India میں بتایا تھا کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ خلیجی مسلمان ہی ممالک سے آیا تھا۔ مشرق وسطیٰ ہی وہ خطہ ہے۔

جہاں سے RSS کو سب سے زیادہ مالی وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ بیرون ملک RSS کی سرگرمیوں کا انچارج رام مادھو اس وقت BJP کا جنرل سیکریٹری اور "امورکشمیر"کا نگران بھی ہے۔ یہ اکثر عرب ممالک کے دورے پر رہتا ہے۔ اس کے سوشل میڈیا ہینڈلز عرب شہزادوں، اعلیٰ سرکاری حکام، اور بااثر افراد کے ساتھ قریبی تعلقات کی تصویری کہانیوں سے بھرے ہوئے رہتے ہیں۔

آر ایس ایس کے ترجمان میگزین " پنج جنیہ" نے اپنی ایک اشاعت میں"رام مادھو" کی ٹائٹل پر تصویر اس سرخی کے ساتھ لگائی تھی۔ "وہ شخص جس کی وجہ کشمیر اور رام مندر جیسے حساس معاملات میں عرب مسلمان ہندو موقف کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ جی ہاں اسی لئے تو ایک ہندو رہنما نے حالیہ بحران میں دعویٰ کیا کہ ہم رام مندر مسلمانوں کی دولت سے بنا رہے ہیں۔

اسی عرب انڈیا تعلق کا دوسرا پہلو معاشی مفادات ہیں۔ ہندوستان اور جی سی سی خلیجی ممالک سعودی عرب۔ کویت۔ متحدہ عرب امارات۔ بحرین۔ قطر اومان کے درمیان مجموعی تجارتی و ترسیلاتی حجم 200 ارب ڈالر ہے۔ بھارت اپنی 70 فیصد پیٹرولیم ضروریات ان ممالک سے پوری کرتا ہے۔ انہیں 110 ارب ڈالر سالانہ ادائیگی کرتا ہے اور 46 ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ 90 لاکھ انڈین ان ممالک میں موجود ہیں۔

34 لاکھ متحدہ عرب امارات اور 27 لاکھ سعودی عرب اسی طرح قطر اور کویت میں تقریبا پندرہ لاکھ۔ بھارت کی معیشت میں ان ممالک سے بھیجے گئے 45 ارب ڈالر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ۔ یورپ اور کینیڈا میں بھارتی شہری زیادہ تر سکھ اور وہاں کے رہائشی ہیں۔ فیملی سمیت وہاں ہیں وہ اپنی کمائی وہیں خرچ کرتے ہیں بہت کم انڈیا بھیجتے ہیں۔ سکھ کمیونٹی خالصتان کے مسئلے پر کچھ ناراض بھی، لیکن عرب ممالک میں مقیم بھارتی فیملیز نہیں رکھتے۔

وہاں کے شہری نہیں، کمائی کا زیادہ تر حصہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔ یہ خوشحال ہیں اور انہی کے بل بوتے پر انتہا پسند ہندو تنظیمیں آر ایس ایس دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم رام مندر مسلمانوں کی دولت سے بنا رہے ہیں۔ اسی معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ پاکستان کی عرب ممالک کی پالیسی سازی تک رسائی۔ پاکستان کا دینی طبقہ عرب ممالک کی دینی۔ رفاحی تنظیموں اور علماء کے ساتھ تعلقات تو رکھتا ہے۔ لیکن پالیسی سازوں تک ان کی رسائی نہیں۔

اسی وجہ سے عرب پالیسی سازوں اور اہم عہدیداروں تک پاکستانی موقف پہنچ ہی نہیں پاتا۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی موقف کا یہ حال ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عربی ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا، جسے 24 گھنٹوں میں ہندو لابی نے ختم کرا دیا۔ تمام بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ہیڈکوارٹر بھارت میں ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاسی۔ دینی۔ سماجی تنظیموں کی جانب سے منظم طور پر عربی میڈیا تک رسائی۔

اور سوشل میڈیا پر مواد کی فراہمی کا کوئی سیٹ ایپ موجود ہی نہیں ہے۔ نہ ہی حکومتی سطح پر ایسا کچھ کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں بی جے پی ترجمان کی گستاخی چند دن پرانی بات ہے۔ عرب میڈیا تک یہ کافی لیٹ پہنچی۔ یعنی پاکستان کے پاس ایسا کوئی منظم نیٹ ورک نہیں کہ عرب ممالک تک ہندوستان کی اسلام دشمنی اور توہین رسالت پہنچا سکیں۔ جبکہ دوسری جانب بھارت کے پاس انتہا پسند ہندو تنظیمیں بھی جو کہ اپنے ملک میں مسلمانوں کو ذبح تک کر دیتی ہیں۔

ان کا جینا حرام کیا ہے۔ وہ بھی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات وہاں پر اپنا منظم نیٹ ورک رکھتی ہیں۔ وہاں سے چندہ اکھٹا کرتی ہیں۔ اور پاکستان کے پاس اتنا بھی انتظام نہیں کہ عربوں کو بتا سکیں کہ آپ کے ہاں سے سماجی خدمات اور تنظیمی جمع ہونیوالا چندہ دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل و غارت۔ اسلام کی توہین۔ نبی کریم کی گستاخی۔ شعائر اسلام کی تضحیک اور برقعہ و نقاب پر پابندی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

ایسے واقعات عربی میں ترجمہ ہو کر عربوں تک پہنچائے ہی نہیں جاتے ہیں۔ ان تک ہندوستان کے امن کا گہوارہ ہونے کا ہی مواد پہنچتا ہے بس۔ اور اس تواتر سے پہنچتا ہے کہ انہیں یقین دلا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کشمیر اور بھارتی ظلم و ستم کی خبریں عرب عوام و پالیسی سازوں تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہندوستان کو عرب ممالک کی ناراضگی کا خطرہ ہو تو انتہا پسند ہندو مسلم مخالف یا اسلام دشمن اقدامات کی جرات ہی نہ کرسکیں۔

بی جے پی ترجمان نوپور شرما نے جب چینل ٹائمز ناؤ پر توہین رسالت کی ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا، ہفتہ بھر پورا ہندو رائیٹ ونگ اور ہندی میڈیا کھل کر اس کی حمایت کرتا رہا۔ لیکن دس دن بعد جب عرب ممالک میں سوشل میڈیا پر ردعمل دیا سعودی عرب قطر اور کویت نے سفارتی احتجاج کیا۔ تو فوری طور پر نوپور شرما کو بی جے پی ترجمان کے عہدے سے برطرف کیا گیا۔

اُس کی بی جے پی کی بنیادی رکنیت بھی ختم کر دی گئی۔ بہت سی ایف آئی آر بھی راتوں رات درج ہوگئیں۔ ہندوستان اور عرب ممالک کے درمیان 200 ارب ڈالر کا تجارتی رشتہ ہے۔ 90 لاکھ بھارتیوں کا روزگار ہے۔ 45 ارب ڈالر کی ترسیلات ہیں اور بھارتی انتہا پسند تنظیموں کے چندے کا معاملہ۔ یہ معیشت۔ مفادات۔ جذبات میں الجھے حقائق ہیں۔ کاش پاکستان میں کوئی اس کا احساس کرے۔ تین دن کے ٹاپ سوشل میڈیا ٹرینڈ اگر بھارت کو جھکا سکتے ہیں۔

عرب عوام اپنے کوڑے دانوں پر مودی کی تصاویر لگا سکتی ہیں۔ سٹورز بھارتی اشیاء کو ڈھانپ سکتے ہیں تو پھر اگر پاکستان کی اہل فکر۔ دینی طبقہ۔ کشمیر کے لئے سرگرم حلقے۔ حکومت اور چند عربی سمجھنے۔ بولنے اور لکھنے والے ملکر اگر عرب دنیا تک کشمیر۔ بھارتی ظلم و ستم اور مسلمانوں و اسلام کے خلاف ان کے عزائم پر مواد پہنچا دیں تو یقیناً دفاعی۔ معاشی اعتبار سے بھی بہت سی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن کرے کون؟ یہ ایک سوال ہے۔ جسکا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔

Check Also

Muqabla O Mawazna

By Dr. Nawaz Amin