Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sana Shabir/
  4. Gordon College Rawalpindi

Gordon College Rawalpindi

گورڈن کالج راولپنڈی

راولپنڈی گورڈن کالج بھی چرچ کو دیا جا رہا ہے۔ پنجاب کی صوبائی کابینہ نے لاہور، راولپنڈی، سیالکوٹ کے چار سکول اس سال مارچ میں حوالے کئے۔ صوبائی وزیر تعلیم مراد راس کی تجویز پر اس کی منظوری دی گئی۔ اس سے پہلے ایف سی کالج لاہور، کنیئرڈ کالج لاہور سمیت کئی بڑے ادارے چرچ کے حوالے کئے جا چکے ہیں۔ یہ صرف تعلیمی ادارے نہیں اربوں مالیت کی پراپرٹیز ہیں۔ چرچ کے حوالے ہوتے ہی انہیں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی طرز پر چلایا جا رہا جس سے کروڑوں کی آمدن چرچ کو ہو رہی ہے۔

اگر آپ اندازہ کر سکتے ہیں تو ضرور کریں کہ لاہور کے مصروف ترین تجارتی مراکز انارکلی، رنگ محل اور راجہ بازار راولپنڈی میں وسیع و عریض عمارتیں مل جانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ جی ہاں کبھی ایف سی کالج، کنیئرڈ کالج کی فیسوں اور آمدن کا پتہ لگا لیں۔ یہ سیدھے صاف معنوں میں مشنری اداروں کے ساتھ اربوں کا تعاون ہے جو کہ اندرونی بیرونی دباؤ پر کیا جا رہا ہے۔

تھوڑا مزید غور کریں تو پتہ چلے گا کہ چرچ کی مذہبی، تبلیغی، ریلیف اور دیگر سرگرمیوں کے لیے یہی آمدن استعمال ہوتی ہے۔ اہل پاکستان سے کمائی گئی یہ آمدن، یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ کسی تنظیم کو اس قدر پرکشش قیمتی ادارہ حوالے کرنے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اب دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔

دراصل 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا۔ جن میں 346 اسلامی اور 118 مشنری سکول و کالجز تھے۔ بعد ازاں پالیسی بدلی، لیکن دوہرا معیار یہ ہوا کہ کرسچن مشنری تعلیمی ادارے تو چرچ کے حوالے کئے جانے لگے لیکن کوئی بھی اسلامی سکول یا کالج کسی دینی تنظیم کے حوالے نہیں کیا گیا۔ چرچ کا مطالبہ تسلیم ہوا کہ اسکے ادارے واپس مل جائیں۔ مساجد کو نہیں مل سکے۔ کسی اسلامی انجمن، تنظیم کو اسکا ادارہ واپس نہیں ملا۔ 1985میں سندھ گورنمنٹ نے 14 مشنری ادارے واپس کر دئیے۔

2004 میں روشن خیالی مہم کے تحت صدر مشرف نے 59 واپس کئے۔ مری، شیخوپورہ کے بڑے ادارے، ایف سی کالج، کنیئرڈ کالج جیسے ادارے جن کے ساتھ اربوں کی پراپرٹیز ہیں۔ اسی طرح انتہائی منظم اور خفیہ طریقے سے ایک ایک، دو یا جب بھی موقع ملا مشنری تعلیمی ادارے واپس ہونے لگے۔ چند رہ گئے ہیں جن میں سے چار رواں سال مارچ میں واپس ہوئے جبکہ گورڈن کالج راولپنڈی اب واپس کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب اسلامیہ کالجز کے نام سے لاہور، پشاور میں کئی ادارے، حمایت اسلام سکولز و کالجز، جامعہ اسلامیہ بہاولپور سمیت سینکڑوں ایسے ادارے جنہیں دینی جماعتوں، انجمنوں اور تنظیموں نے لوگوں سے چندے لیکر بنایا تھا۔ جن کا مقصد دینی علوم کا فروغ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں کیا گیا۔ یہ سب ادارے حکومتی تحویل میں کام کر رہے ہیں۔ کس قدر دوہرا معیار ہے کہ مشنری تعلیمی ادارے تو واپس کئے جا رہے ہیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ چرچ نے بنائے تھے لیکن کسی اسلامی سکول و کالج کو واپس نہیں کیا گیا۔

اب ہر جگہ ہوا یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ادارہ چرچ کو واپس ہوا تو اسے فوری طور پر کمرشل کر دیا گیا۔ تجارتی بنیادوں پر چلایا جانے لگا۔ وہاں موجود سٹاف کو نکال دیا گیا۔ ایک مکمل کرسچن ادارے کے تحت چلایا جانے لگا۔ جہاں مسلم طلباء کے لئے تو مہنگی فیسیں جبکہ کرسچن کمیونٹی کے لئے سکالرشپس موجود ہیں۔ یہ سب ادارے شہروں میں انتہائی قیمتی، تجارتی مقامات پر واقع ہیں۔

مہنگی فیسوں، ساتھ قائم دکانوں اور دیگر ذرائع سے یہ ادارے کروڑوں کی آمدن دے رہے ہیں۔ اربوں کی پراپرٹیز ساتھ ہیں جو سب کچھ چرچ کے استعمال میں ہے۔ ان اداروں میں پڑھنے والے عیسائی تو شائد بنیں یا نہ بنیں البتہ یہاں مشنری ماحول میں کئی سال رہ کر سیکولر، لبرل اور ملحد نظریات کے حامل ضرور بن جاتے ہیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کوئی دینی جماعت مطالبہ کر سکتی ہے؟ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، حمایت اسلام سکول و کالجز ان کے حوالے کر دئیے جائیں۔ گورنمنٹ کی تحویل میں موجود ان اداروں کی عمارتیں اور ساتھ موجود پراپرٹیز اتنی قیمتی ہیں کہ کئی دینی جماعتوں کا بجٹ چلا سکتی ہیں۔ جنہیں تبلیغی، خدمت خلق اور دینی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ارض پاک میں ایسا نہیں ہو سکتا یہاں صرف چرچ کو اربوں مالیت کے تعلیمی ادارے تجارتی، تبلیغی مقاصد کے لیے واپس مل سکتے ہیں۔ جہاں حکومت کا ذرا سا بھی عمل دخل نہیں رہتا۔ ان کی فیسیں وہ خود طے کرتے ہیں اور آمدن چرچ استعمال کرتا ہے۔ الحاق برطانوی و امریکن یونیورسٹیوں سے ہوتا ہے۔ اے او لیول کے نام پر فیسیں برطانیہ پہنچتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات حکومتی فنڈز بھی ملتے ہیں۔ کوئی اسلامی تنظیم، مسجد، مدرسہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسے 346 میں سے کوئی ایک بھی ادارہ واپس نہیں مل سکتا کیونکہ اس حوالے سے کوئی اندرونی بیرونی دباؤ موجود نہیں ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں قیمتی اداروں کا کنٹرول حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بھاری سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ دراصل اربوں کی پراپرٹیز اور تجارتی مقاصد کی گیم ہے۔ اس کے لیے اندرونی و بیرونی دباؤ۔ اقلیتوں کے حقوق، میڈیا، این جی اوز سمیت ہر حربہ استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ تحویل ملتے ہی اس کی آمدن سے سب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی، تبلیغی، تجارتی اور ریلیف کے مقاصد۔ ٹرسٹ کے بینیفیشریز کون ہوتے ہیں اس حوالے سے حکومت یا کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ارض پاک ایک بار پھر کالونیل دور کی طرف جا رہی ہے جہاں بڑے ادارے مشنری نیٹ ورک کو دئیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے این جی اوز کے تحت سینکڑوں سکولز فراہم کر دئیے گئے ہیں۔ اس کا ایک پہلو ہزاروں طلباء وطالبات کا حصول تعلیم سے محروم ہو جانا بھی ہے۔ چرچ کے پاس جاتے ہی یہ تعلیمی ادارے کمرشل ہو جاتے ہیں۔ جس کالج کی فیس چار ہزار سالانہ ہوتی ہے۔ اسکی فیس فی سمسٹر ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہو جاتی ہے اور اس طرح مڈل کلاس اور متوسط طبقے کے ہزاروں طلباء وطالبات کے لیے تعلیم کا خواب ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح ان اداروں سے منسلک سینکڑوں ملازمین اساتذہ کرام بھی دربدر ہو جاتے ہیں۔ ریگولر ملازمین کو دور دراز ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے جبکہ کنٹریکٹ و دیگر کو بیروزگار۔ اگر کسی کو شک ہے تو وہ جو بھی ادارے واپس ہوئے ان کے بارے تحقیق کر لے۔ ایف سی کالج چلا جائے۔ کنیئرڈ کالج کا چکر لگا لے۔ چرچ کے نام پر حوالے ہوتے ہی انہیں کس طرح تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مضبوط گروپ یہ کمرشل ڈیل کرتا ہے۔

ایسا درجنوں اداروں میں ہو چکا ہے اور اب گورڈن راولپنڈی اسکا نشانہ ہے۔ کوئی ہے جو اس بارے فکرمند ہو۔ ایک پالیسی کے تحت اس دوہرے معیار اور ہزاروں طلباء وطالبات کو تعلیم کے حق سے محروم کرنے کا احساس کر سکے۔ کیا ان طلباء و طالبات کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان گھرانوں میں کیوں پیدا ہوئے۔ انہیں تعلیم کا کوئی حق نہیں۔ کیا وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے مذہب بدلیں؟

کاش دینی حلقے ان اقدامات کے پاکستانی معاشرے پر اثرات کا جائزہ لے سکیں۔ کیا کوئی حقوق نسواں کی علمبردار تنظیم ان بچیوں کے لیے بھی آواز اٹھا سکے گی۔ کیا ان تعلیم سے محروم ہوتے بچوں کو انکا حق ملے گا۔ کیا کوئی میڈیا، حکومت، سول سوسائٹی ان طلبا وطالبات کی آواز بنے گی۔ یہ ایک سوال ہے؟

Check Also

Soft Diplomacy

By Saleem Zaman