1.  Home
  2. Blog
  3. Samera Sajid
  4. 19vi Se 20vi Sadi Tak

19vi Se 20vi Sadi Tak

انیسویں سے بیسویں صدی تک

ہر دور میں انسان اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کی خاطر کائنات کی مختلف اشیاء کے مابین ربط پیدا کر کے کچھ نہ کچھ اختراع و ایجاد کرتا رہتا ہے۔ جب نیوٹن سیب کے درخت کے نیچے بیٹھا سوچ کے جزیرے پہ کچھ تلاشنے میں گم تھا کہ اچانک سیب کا نیوٹن کے سر پہ گرنا اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آخر کار یہ وزنی شے تیزی سے زمین کیطرف ہی کیوں گرتی ہے؟ اور یوں کششِ ثقل کا نظریہ اور ایک اہم ترین دریافت سامنے آئی۔

انیسویں صدی کو سائنسی ایجادات کی صدی سے بھی یاد رکھا جائے گا۔ اسی صدی میں ‌ مختلف سائنسی تجربات کے دوران ایسے اتفاقی اور حادثاتی واقعات پیش آئے جنھوں نے دریافتوں اور انکشافات کا راستہ ہموار کیا۔ الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 میں "انفلوئنزا وائرس" کو کنٹرول کرنے کے لیے کام شروع کیا۔ دو ہفتوں کی چھٹیوں ‌ کے بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ لیبارٹری میں جو تجربہ ٹرے میں بیکٹیریا رکھا تھا اس پر پھپھوندی جم گئی۔

مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ پھپھوندی نے بیکٹیریا کی افزائش روک دی تھی۔ الیگزینڈر فلیمنگ نے اس مشاہدے اور تجربے کے بعد پھپھوندی کی ماہیت پر مزید کام کیا اور پنسلین جیسی دریافت ہوئی اور اینٹی بائیوٹک کا دور شروع ہوا۔ سائنس کی دنیا میں ہمیں سینکڑوں مثالیں ایسی مل جائیں گی جہاں حادثاتی طور پہ ایجادات ظہور پذیر ہوئیں۔ جہاں ہم انیسویں صدی کو سائنسی تجربات سے پیدا ہونے والے سائنسی ایجادات کی صدی کے نام سے یاد رکھیں گے۔

وہی پر پاکستان کی تاریخ میں بیسیوں صدی کو سیاسی تجربات کی صدی سے یاد رکھا جائے گا۔ جہاں تجربات کرتے ہوئے حادثاتی طور پر رونما ہونے والے واقعات، آرڈینینس اور قوانین کی دنیا میں تہلکہ خیز ثابت ہونے پہ اپنے آپ میں ایک الگ تھلگ پہچان رکھیں گے۔ جس کی مثالیں ہمیں وفاق سے لیکر پنجاب اسمبلی میں خاطر خواہ نظر آتی ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی بات کو سٹڈی کیا کہ اسمبلیوں کا کام قوانین تیار کرنا اور عدالت کا کام اس کی تشریح کرنا ہے۔

اسمبلی سے قانون پاس ہوتا ہے اور سپریم کورٹ اس پہ عمل درآمد کرتی اور کرواتی ہے۔ اب یہاں ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے جو تاریخ دانوں کے لیے بھی ایک نئی ایجاد کے طور پہ رونما ہوتا ہے کہ اسمبلی میں ہونے والے فیصلوں کو سپریم کورٹ کے آرڈرز سے رد و بدل کیا جائے اور اسپیکر قومی اسمبلی آئین کے تحت فیصلے کرنے کا مجاز نہی بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔

یہ بھی پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تجربہ کیا گیا جس کے بعد ابھی تک ملکی حالات اس تجربہ سے پیدا ہونے والے حادثات سے مسلسل گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔ بات اگر سندھ ہاؤس میں ہوئی خرید و فروخت کی ہو یا پنجاب اسمبلی میں لوٹا کریسی کے ڈی سیٹ ہونے کی، تو ابھی تک ملک پاکستان تجربات کی لیبارٹری میں پھپھوندی زدہ سیاست کے بھینٹ چڑھا نظر آتا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے بعد بڑی تعداد میں نون لیگ کے منحرف اراکین بھی رفتہ رفتہ منظر عام پر آنا شروع ہو گئے جس میں عظمی بخاری اور ان کے شوہر کو ن لیگ نے غدار قرار دیدیا۔ ان دنوں ہم سیاست کا ایک انوکھا نہیں عظیم الشان و بے مثال تجربہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ تجربہ پوری طرح سے کامیاب ہو گیا تو دنیا میں ہم سیاسی لیبارٹری میں ایک نئی ایجاد کر کے ملک پاکستان کا نام روشن و تابندہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تجربہ یہ ہے کہ صوبے اور ملک بنا کسی حکومت کے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ دو مہینے ہو گئے پنجاب میں کوئی حکومت نہیں ہے اور پنجاب پھر بھی پورے آب و تاب سے منزلوں کی طرف گامزن ہے، اور دو ہی مہینے ہو گئے وفاق میں بھی حکومت کی خاطر خواہ کارکردگی نظر نہی آتی۔ البتہ وفاق اپنی بہترین کارکردگی کے مظاہرے ایک ہی میدان میں کرنے کی کوشش میں صحافت کی زبان کاٹ کر بغاوت کی بیڑیوں میں جکڑنے کے اقدامات اٹھاتا ہوا اپنے ہونے کا شدت سے احساس دلاتا نظر آتا ہے۔

پنجاب میں حکومت نہ ہونے کی بات کچھ وضاحت طلب ہے۔ پنجاب میں مہینہ بھر سے کوئی حکومت نہیں تھی۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک وزیراعظم اپنے لخت جگر کو وزارت اعلیٰ کی کرسی کے لیے تڑپتا دیکھ اسے وزیر اعلیٰ کا تاج پہناتا ہے اور ملکی ادارے خاموشی سے ان تجربات کو دیکھتے اور اس سے ہونے والی نئی ایجادات کے منتظر نظر آتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے سابق حکمران جماعت کے منحرف ارکان کی رکنیت ان کے دیئے گئے ووٹوں سمیت ختم کرنے کے فیصلے سے اس تجربہ کی کالعدمی مزید کالعدم ہو گئی سونے پہ سہاگا کہ گورنر بھی نہیں ہے۔ ماضی قریب و بعید کی پوری سیاسی دنیا میں ایسے شاندار "تجربے" کی مثال نہیں مل سکتی۔

اور لطف سے بھرپور یہ کہ پنجاب میں حکومت بھی چل رہی ہے اور بیورو کریسی سمیت تمام ادارے بھی کام کر رہے ہیں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آئینی طور پہ یہاں کوئی وزارت اعلیٰ کے منصب پر موجود بھی نہی لیکن غیر آئینی طور پہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے آرڈز کی پاسداری بھی ہو رہی ہے۔ جس میں آزادیِ صحافت پہ شب خون بھی بھرپور طریقے سے مارا جا رہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے 73ءکے آئین پہ 2022ء کا آئین کیسے اور کون کون سی شقوں و آرڈیننس پہ تیار کیا جائے گا؟ جو کہ سیاسی لیبارٹری میں ایک نئے تجربہ میں حادثاتی طور پر ہونے والی ایجاد ہو گا۔ یا پھر تاریخ 73ءکے آئین کو پامال کرنے والوں اور دن دیہاڑے آئین کو بے آبرو کرنے والے کرداروں کو اس جرم کی پاداش میں کبھی معاف نہی کرے گی۔

یہاں صغیر احمد صغیر کی غزل کے چند اشعار یاد آ گئے کہ:

امیرِ شہر، بصد احترام تھک چکے ہیں

خدارا بوجھ گھٹاؤ غلام تھک چکے ہیں

کہیں سے بھیج دے موسیٰ یا پھر خلیل کوئی

مرے خدا، ہو کوئی انتظام تھک چکے ہیں

فقط یہ چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا

خدا کے واسطے بدلو نظام، تھک چکے ہیں۔

Check Also

Muhabbat Se Kab Tak Bhago Ge?

By Qurratulain Shoaib