Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajjad Naqvi
  4. Science Ki Roshni Mein Takhleeq e Kainat

Science Ki Roshni Mein Takhleeq e Kainat

سائنس کی روشنی میں تخلیقِ کائنات

اس بسیط اور لامحدود کائنات میں ان دیکھے اور چھپے مقامات کی دریافت اور ان میں نہاں اسرار و رموز کی کھوج کے لیے انسان بہت متجسس واقع ہوا ہے۔ اس نے جب شش جہت نگاہ ڈالی تو کائنات کی رنگا رنگیوں سے بے حد متاثر ہوا اور ساتھ ہی اس کے ذہن میں کائنات اور اس سے متعلق اشیا کے بارے میں آگہی کی خاطر کئی سوالوں نے جنم لیا اور سب سے بڑا سوال کائنات کا وجود تھا کہ یہ کب اور کیسے وجود میں آیا؟ مذہبی پیشواوں سے لے کر فلسفیوں تک سب نے اپنی اپنی عقل و منطق کی دانست میں جواب رقم کیے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا رہا ان میں سائنس دانوں کی تحقیق سب پر مقدم رہی۔ اس مضمون میں تخلیقِ کائنات کے ابتدا سے اب تک کے ہونے والے ارتقائی مراحل کا سائنسی نقطہ نظر سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ بیکراں کائنات، لامنتہی کہکشائیں اور ان میں ہر ایک کے اندر گھومتے بے تحاشا ستارے، سیارے، چاند، سورج اور موجود تمام مادہ آج سے قریباً 13.8 بلین سال قبل ایک نقطہ میں سمٹا ہوا تھا جسے کائنات کی وحدت (Singularity) کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور پھر اچانک اس کا پھیلاو شروع ہوگیا جسے آج بگ بینگ یا عظیم دھماکہ کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ بگ بینگ تھیوری سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ اچانک کوئی دھماکہ (Expulsion) ہوا بل کہ یہ بتدریج پھیلاو ہے۔ پھیلاو کے ابتدائی لمحات میں کائنات انتہائی گرم تھی اور شروع میں تمام مادہ توانائی اور حرارت کی صورت میں تھا اور آہستہ آہستہ اس کا درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوا اور مادہ (Matter) کی حالت کا آغاز ہوا۔ یہ در اصل بگ بینگ کے ادوار ہیں۔

توانائی سے مادہ بننے تک کے ادوار کا غائر نظر سے مطالعہ کیا جائے تو آئن سٹائن کی مساوات E=mc2 کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ جس کے مطابق مادہ(ماس) اور توانائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں ایک دوسرے میں تبدیل پزیر ہیں۔ لہذا اس نظریہ کے مطابق توانائی مادے میں ڈھلتے گئی اور طویل عرصے پر محیط ارتقا کی صورت آج یہ مادہ کائنات، کہکشائیں، سیارے، شمس و قمر، نباتات و حیوانات، انسان اور اس کی تاریخ کی صورت متشکل ہے۔ لیکن ان تمام اجسام کی تشکیل میں خاص طرح کے کیمیائی مادے (Elements) درکار تھے۔ مگر ابتدا میں تو کثیر مادہ ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسی گیسوں پر مشتمل تھا تو دیگر کیمیائی مادے یا عناصر کہاں سے آئے؟ اس کا جواب ستاروں کی بھٹیاں ہیں (جو آگے تفصیل میں موجود ہے)۔

رات کے شفاف آسمان پر نگاہ کریں تو ہمیں ستاروں کا ایک دلفریب اور متنوع جہانِ حیرت نظر آتا ہے۔ ہر عام و خاص کے لیے یہ منظر بہت حسین اور جاذبِ نظر ہوتا ہے۔ مگر کچھ متلاشی مزاج کے حامل اذہان کے لیے یہ منظر انگشتِ بہ دنداں ہوتا ہے کہ آخر یہ سب ستارے کہاں سے آئے کیسے بنے اور کیا ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہیں؟ شمعِ تجسس کی حرارت نے انسان کو ان سوالات کی کھوج میں متحرک و منہمک رکھا اور آخرکار جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے سبب انسان ان تمام سوال کے جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ سائنسی تحقیق کے مطابق ستارے در اصل گرم گیسوں کے بڑے بڑے گولے ہوتے ہیں جو زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم ذرات پر مشمتل ہوتے ہیں۔ قوت تجاذب ان گیسوں کو گولے میں مقید رکھتی ہے۔ بگ بینگ کے نتیجے میں ہائیڈروجن اور ہیلیم کے جو عنصر وجود میں آئے وہ اپنے ارتقائی سفر میں ستارے کی صورت تشکیل ہوئے۔

رات کے سیاہ آسمان پر نظر آنے والے ان گنت ستاروں کی روشنی کا منبع نیو کلیئر فیوژن تعامل ہوتا ہے۔ اس عمل میں ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسیں شدید کشش ثقل اور دباو کے سبب قربت میں آجاتی ہیں اور ان کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ نیوکلیائی عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے توانائی روشنی اور دیگر تابکاری شعاعوں کی صورت میں خارج ہوتی ہے اور ستارے ہمیں روشن دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی ستارے کا ایندھن ہائیڈروجن جلتا جائے گا بدلے میں ہیلیم بنتا جائے گا اور یوں ستارے کی چمک دمک کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

دن کے آسمان پر روشن ترین آگ کا گرم ترین گولہ سورج بھی ایک عظیم ستارہ ہے۔ اس کائنات میں ہمارے سورج کی نسبت کئی دیو ہیکل ستارے موجود ہیں۔ سورج ہماری زمین کا قریب ترین ستارہ ہے۔ جبکہ بقیہ ستارے زمین سے لاکھوں کروڑوں نوری سال کی مسافت پر موجود ہیں۔ نوری سال خلا میں مسافت معلوم کرنے کی پیمائشی اصطلاح ہے۔ ایک نوری سال سے مراد وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال یعنی 365 دنوں میں طے کرتی ہے۔ سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں قریباً ساڑھے آٹھ منٹ کا وقت لیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج زمین سے قریباً ساڑھے آٹھ نوری منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔

ستاروں کو دیکھیں تو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ جامد نقطے ازل سے ایسے ہی ٹمٹما رہے ہیں۔ لیکن ایک ماہر فلکیات ہرشیل کے بقول "ستارے غیر متغیر اجرام فلکی نہیں ہیں بلکہ ان کا ایک دورانیہ حیات ہوتا ہے۔ یہ پیدا ہوتے ہیں، مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بلآخر بوڑھے ہوکر مردہ (راکھ) ہوجاتے ہوجاتے ہیں"۔

ستارے جب اپنا ایندھن خرچ کر چکے ہوتے ہیں تو ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے جسے سپر نووا کہتے ہیں اور یوں یہ ملبا گیسی بادلوں اور دیگر ذرات کی حالت میں بکھر جاتا ہے جسے نیبیولا (Nebula) کا نام دیا جاتا ہے۔ (ان ستاروں کا انبار بلیک ہول یا نیوٹرون ستارے کی جسامت بھی حاصل کر سکتا ہے)۔ نیبیولا در اصل ایسی نرسری ہے جس کے خام مال یعنی گیسوں اور ذرات سے نئے ستارے دوبارہ بننے شروع ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ستارے بنتے ہیں، فنا ہوتے ہیں اور ان کے باقیات سے پھر نئے ستارے وجود پاتے ہیں۔

عظیم سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق ہمارا سورج بھی اسی طرح بننے والا دوسری یا تیسری نسل کا ستارہ ہے، جو کوئی پانچ ارب سال پہلے گھومتی گیس کے ایسے بادل سے بنا تھا جو اس سے پہلے ہونے والے سپر نووا کے ملبے پر مشمتل تھا۔ جبکہ بقیہ ملبا سورج کی کشش ثقل کے باعث اس کے گرد گھومنا شروع ہوگیا اور ایک ایسا وقت آن پہنچا جب یہ انبار زمین اور دیگر سیاروں کی صورت اختیار کر گیا۔

ابتدا میں زمین نہایت گرم گویا لاوا تھی۔ جو آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی گئی۔ مزید براں اس کی تہہ داری شروع ہوئی اس کی کور نکل اور آئرن کے عناصر سے پُر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زمین پر ایک مقناطیسی غلاف بنتا ہے جو سورج سے آنے والی خطرناک شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ جبکہ چٹانوں سے نکلنے والی گیسوں نے ایک فضائی کرہ قائم کیا اور یوں قدرتی طور پر یہاں پر ایسے رویے اور مظہر سامنے آتے گئے جس سے زمین میں زندگی کے قابل ساز گار ماحول پیدا ہوتا ہے اور یہی سے نامیاتی اشیا (Organic compound)کی ارتقائی حقیقت شروع ہوتی ہے۔ ارتقا کا یہ سفر خردبینی جراثیموں سے سمندروں میں مچھلیوں، خشکی پر رینگنے والے جانوروں اور ممالیہ جانوروں سے ہوتا ہوا نوع انسان تک پہنچا۔

یاد رہے کہ ارتقا علم حیاتیات کی بنیاد اور تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ جس میں جانداروں کی اشکال و جسامت کی تقلیب میں لاکھوں کروڑوں سال لگتے ہیں۔ ہمارے اطراف و جوانب کے ماحول میں موجود سر سبز و شاداب نباتات اور دیو قامت کوہسار سب ارتقا کے سلسلے کا زائدہ ہیں۔ اس زمین کو بنے 4.6 بلین سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس پر صدیوں سے کئی زندگیوں نے جنم لیا، کئی فنا ہوئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور رہے گا۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق زمین کے علاوہ خلا میں دیگر سیاروں یا چاند وغیرہ پر تاحال زندگی کے کہیں کوئی آثار کی تلاش نہیں ہوسکی۔

یہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں (یاد رہے کہ سیارے سورج کے گرد نہیں بالکل ٹیکنیکلی طور پر اپنے بیری سینٹر کے گرد گردش کرتے ہیں، اسی طرح چاند زمین کے گرد نہیں بلکہ اپنے مرکز بیری سنٹر کے گرد گھومتا ہے اور ان سب کے درمیان کشش ثقل انھیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے) اور یوں ہمارا نظام شمسی وجود پاتا ہے، نظام شمسی سے مراد ستاروں، سیاروں سورج، چاند اور دیگر اجرام فلکی کا خاندان ہے جو ہمارے سورج کے گرد محو گردش ہیں۔ جبکہ کہکشاں سے مراد ستاروں، غبار اور ذرات کا مجموعہ ہے۔ اس کائنات میں اربوں کہکشائیں موجود ہیں جس میں لا محدود ستارے اور سیارے پائے جاتے ہیں۔ ایڈون ہبل کے مطابق یہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہورہی ہیں گو کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ ہماری کہکشاں کا نام ملکی وے ہے۔ جس کے ستارے تاریک آسمان پر موتیوں کے مانند چمک دار اور اور دلکش محسوس ہوتے ہیں۔

کارل سیگن نے کہا تھا کہ ہم انسان ستاروں کی باقیات ہیں یا ہم ستاروں کی راکھ سے بنے ہیں جو ایک طرح سے بالکل سائنسی صداقت ہے۔ کیوں کہ ہمارے جسموں میں موجود کیمیائی عناصر اور ہمارے اردگرد کی ہر چیز میں پائے جانے والے عناصر اربوں سال پہلے ستاروں کی بھٹیوں میں بنے تھے۔ فلکیاتی تحقیق کے معتبر ادارے ناسا (NASA)کی ایک رپورٹ کے مطابق ہائیڈروجن بگ بینگ کے دوران بنی تھی جو آکسجن کے ساتھ مل کر پانی بناتی ہے جسے ہم پیتے ہیں۔ ہمارے ڈی این اے میں موجود نائٹروجن کبھی چھوٹے ستاروں کے اندر تھی۔ یہ ستارے اپنی زندگی کے اختتام پر اپنی بیرونی تہوں کو بہاتے ہیں، نیبیولے بناتے ہیں اور اپنے نائٹروجن کو ہمارے نظام شمسی کا حصہ بننے کے لیے آزاد کرتے ہیں۔

کیلشیم جو ہماری ہڈیوں کو صحت مند اور مضبوط بناتی ہے وہ بڑے ستاروں نے بنائی تھی جو ہمارے نظام شمسی کی تشکیل سے پہلے پھٹ گئے تھے۔ آپ جو زیورات زیب تن کرتے ہیں اس میں سونا، چاندی یا پلاٹینم اس وقت تخلیق ہوا جب دو نیوٹران ستارے آپس میں ٹکڑا گئے۔ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، ہمارے جسموں اور جس سیارے پر ہم رہتے ہیں اسے بنانے کے لیے اس صحیح مواد کو اکٹھا ہونا تھا۔

المختصر کیمیائی عناصر کے جدول میں موجود ہر عنصر اور ہمارے آس پاس کی ہر شے ستاروں سے بنی ہے۔ جب ان عناصر کا ترتیب سے ظہور ہوا تو زندگی نے وجود پایا اور ان عناصر کے اجزا میں عدم توازن اور عدم اعتدال ہی در اصل موت ہے۔ اس سائنسی صداقت کو ایک شاعر چکبست برج نرائن نے بڑی عمدگی سے نظم کیا ہے:

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انھی اجزا کا پریشاں ہونا

یہ تمام کیمیائی عناصر اس قدر اہمیت اور فضیلت کے حامل ہیں کہ اگر ان میں سے محض چند لمحات کے لیے آکیسجن یا کاربن وغیرہ معدوم ہوجائے تو ہر شے فنا ہوجائے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کی موجودہ حالت ان عناصر کی بدولت قائم ہے۔

اس کائنات کا تمام مادہ 5 فیصد ایٹموں پر مبنی ہے جبکہ باقی 95 فی صد مواد، جس میں 27 فیصد تاریک مادہ اور 68 فی صد تاریک توانائی شامل ہے، نظروں سے اوجھل ہے۔ جسے انگریزی میں ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کہتے ہیں۔ یہ ایک نہایت حیرت انگیز سچائی ہے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجیز اس قدر تیز رفتاری سے ترقیوں اور رفعتوں کی شاہراہ پر گامزن ہیں کہ کائنات اور اس کے سینے میں دفن کئی راز افشاں ہو رہے ہیں۔ ایجادات و اختراعات اور دریافتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

آج انسان جہانِ کبیر (Universe) اور جہانِ صغیر(Quantum) کے نت نئے تسخیرِ مقامات کی اوج پر ہے۔ جدید دور بینوں کے توسط سے لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاوں کی تصویروں کو عکس بند کیا جا رہا ہے اور ماضی میں ہونے والے واقعات سے متعلق اہم ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے۔ لہذا ممکن ہے کہ نظروں سے اوجھل کائنات کے 95 فی صد تاریک مادے اور توانائی کے بارے میں بھی مستقبل میں کوئی اہم پیش رفت ہو سکے۔

Check Also

Imtihanat Aur Booti Mafia

By Najeeb ur Rehman