Siasi Na Pukhtagi Ka Khamyaza
سیاسی ناپختگی کا خمیازہ

اقتدار ایک ایسا سراب ہے جو جب تک سامنے ہو، حقیقت محسوس ہوتا ہے، مگر جیسے ہی چھن جائے، انسان پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اپنی ہی پرچھائیوں میں بھٹکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف، جو ایک وقت میں سیاسی اُفق پر ایک طوفان کی صورت ابھری، عوامی تمناؤں کی علامت بنی، کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، ایک نئے پاکستان کا خواب دکھایا، آج خود اسی خواب کی کرچیوں کو سمیٹنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی نے جو روش اختیار کی، وہ اس کی سیاسی بلوغت پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔
جب کسی سیاسی جماعت کو اقتدار سے محروم کیا جاتا ہے یا وہ خود اسے گنوا بیٹھتی ہے، تو فطری طور پر ایک خود احتسابی کا مرحلہ آتا ہے۔ قیادت سے لے کر کارکن تک، سب کو اپنے نظریات، حکمتِ عملی اور فیصلوں پر نظرثانی کرنی ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے اس محرومی کو بطور صدمہ قبول کرنے کی بجائے، اسے انا کا مسئلہ بنا لیا۔ ان کے قائدین نے اپنے بیانیے میں اعتدال اور تدبر کی بجائے، جارحیت اور نفرت کو جگہ دی۔ ایک طرف اداروں پر تنقید، دوسری طرف عوام کو مسلسل جذباتی نعروں کے ذریعے مشتعل کرنا، یہ سب وہ عوامل تھے جنہوں نے پارٹی کو سیاست کی مرکزی شاہراہ سے ہٹا کر ایک تنگ گلی میں لا کھڑا کیا۔
پی ٹی آئی نے اقتدار کے بعد نہ صرف اپنے بیانیے کو دھندلا کیا بلکہ تنظیمی ڈھانچے کو بھی منتشر ہونے دیا۔ ہر آنے والا دن ایک نیا اختلاف، ایک نئی علیحدگی اور ایک نئے گروہ بندی کی خبر لے کر آیا۔ سیاسی جماعتیں تب ہی زندہ رہتی ہیں جب ان میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ اور اختلاف کو سمیٹنے کی حکمت موجود ہو۔ لیکن پی ٹی آئی کی صفوں میں اختلافِ رائے کو بغاوت سمجھا گیا اور قیادت نے وفاداری کے پیمانے صرف شخصیات کی محبت پر رکھ دیے۔
ایک بڑی سیاسی غلطی یہ بھی رہی کہ پی ٹی آئی نے خود کو عوام کے اصل مسائل سے کاٹ لیا۔ جب اقتدار ہاتھ سے گیا، تو مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم، صحت، یا علاقائی محرومی جیسے اہم ایشوز کے بجائے، سارا بیانیہ اداروں، میڈیا اور مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف نفرت انگیزی پر مبنی ہوگیا۔ اس رویے نے پارٹی کو محض ایک احتجاجی تحریک تک محدود کر دیا۔ جلسے، جلوس اور بیانات میں جوش تو نظر آیا، مگر ہوش غائب تھا۔ قیادت کا لب و لہجہ، اندازِ گفتگو اور سیاسی حکمتِ عملی کسی بھی بڑے قومی لیڈر کے شایانِ شان نہ تھی۔
تحریک انصاف کا ایک اور نقصان دہ رویہ یہ رہا کہ اس نے قانونی راستوں کی بجائے تصادم کی راہ اختیار کی۔ جب بھی کسی عدالتی فیصلے یا قانونی پیش رفت کا سامنا کرنا پڑا، پارٹی کی جانب سے الزام تراشی، سازشی بیانیے اور ریاستی اداروں پر براہِ راست حملے دیکھنے میں آئے۔ جس کی عملی تصویر نو مئی کے فسادات تھے۔ سیاسی عمل میں قانونی پیچیدگیاں آتی رہتی ہیں، لیکن بالغ نظر قیادت ان کا سامنا استدلال اور آئینی دائرے میں کرتی ہے۔ پی ٹی آئی نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، جو اس کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے بے دریغ اور غیر سنجیدہ استعمال نے پارٹی کے بیانیے کو نقصان پہنچایا۔ کارکنوں اور بعض رہنماؤں کی جانب سے غیر مصدقہ خبریں، گالم گلوچ اور توہین آمیز زبان نے نہ صرف مخالفین کو بلکہ خود پارٹی کے معتدل ووٹرز کو بھی بددل کیا۔ سوشل میڈیا کی طاقت کو تنظیم سازی یا نظریاتی وضاحت کے لیے استعمال کرنے کی بجائے، اسے ایک ایسی جنگ کا میدان بنایا گیا جس میں اخلاقیات اور تہذیب کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔
اقتدار سے محرومی کے بعد ایک اہم لمحہ وہ ہوتا ہے جب قیادت کو چاہیے کہ وہ پارٹی کی ساخت کو مضبوط کرے، نئی صف بندی کرے اور اگلے الیکشن کی تیاری کرے۔ لیکن پی ٹی آئی نے یہ وقت صرف مظلومیت کا راگ الاپنے اور ہر ادارے کو اپنے خلاف دشمن تصور کرنے میں گزار دیا۔ نتیجتاً، جب سیاسی میدان میں ایک مربوط پالیسی اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی، پارٹی انتشار اور غیر یقینی کی تصویر بنی رہی۔
سیاسی کارکنوں پر آئے روز ہونے والے دباؤ اور گرفتاریوں کے باوجود، پارٹی قیادت نے کوئی واضح حکمت عملی ترتیب نہ دی۔ کارکن خود کو تنہا اور لاوارث محسوس کرنے لگے۔ اس رویے نے پارٹی کے اندر عدم اعتماد اور بددلی کو جنم دیا۔ کارکن وہی ہوتا ہے جو قیادت کے اشارے پر سب کچھ قربان کر دیتا ہے، مگر جب وہی قیادت مشکل وقت میں پیچھے ہٹ جائے یا خاموشی اختیار کرے، تو تحریک کا جوہر ماند پڑ جاتا ہے۔
آج جب ہم تحریک انصاف کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقتدار کا نشہ اور پھر اس کا اچانک زوال، کسی بھی سیاسی جماعت کو یا تو سنوار دیتا ہے یا تباہ کر دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کو وقت نے موقع دیا تھا کہ وہ اپنے زخموں سے سیکھے، اپنے نظریات کو نکھارے اور ایک نئی سوچ کے ساتھ عوام کے پاس واپس آئے، مگر اس نے محض الزامات، انتقام اور احتجاج کی راہ کو ترجیح دی۔
وقت اب بھی ہاتھ سے مکمل نہیں نکلا۔ اگر پی ٹی آئی واقعی خود کو ایک نظریاتی، جمہوری اور بالغ نظر سیاسی جماعت بنانا چاہتی ہے، تو اسے سب سے پہلے اپنے رویے، بیانیے اور حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ بصورتِ دیگر، تاریخ اسے صرف ایک "موقع ضائع کر دینے والی" جماعت کے طور پر یاد رکھے گی، جس نے ایک سنہری موقع اپنی ناتجربہ کاری، خود پسندی اور جذباتی رویے کی نذر کر دیا۔

