Shareek e Jurm Na Hote To Mukhbari Karte
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

کرۂ ارض پر تغیرِ آب و ہوا کا مسئلہ اس وقت عالمی سطح پر سب سے بڑی آفت کی صورت اختیار کرچکا ہے، لیکن اگر اس بحران کے اثرات کو مخصوص خطوں کی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان ان ممالک میں سرِفہرست نظر آتا ہے جو اس عفریت کے پنجے میں سب سے زیادہ جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان نے اس عالمی ماحولیاتی تباہی میں نہ ہونے کے برابر حصہ ڈالا ہے، مگر اس کی سزا سب سے بڑھ کر پاکستان ہی بھگت رہا ہے۔ یہ المیہ محض اعداد و شمار کی خشک زبان نہیں بلکہ لاکھوں زندگیاں، کروڑوں خواب اور صدیوں پرانی تہذیبوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی ساخت اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں کیوں سب سے زیادہ آیا۔ شمال میں فلک بوس برفانی چوٹیاں، مشرق میں صحرا، مغرب میں بنجر پہاڑ اور جنوب میں ساحلی پٹی۔ گویا چاروں اطراف قدرت نے ایسے مناظر سمو رکھے ہیں جو بظاہر پاکستان کی خوبصورتی کی علامت ہیں لیکن درحقیقت انہی مناظر میں پاکستان کی کمزوری بھی چھپی ہوئی ہے۔ برفانی چوٹیاں تیزی سے پگھل رہی ہیں، صحرائی پٹی مزید پھیل رہی ہے، ساحلی علاقوں کو سمندر نگلنے کے درپے ہے اور بارشوں کا نظام اس درجہ غیر متوازن ہوچکا ہے کہ کبھی برسوں تک بارش نہیں برستی اور کبھی ایامِ معدودہ میں اتنی بارش ہوجاتی ہے کہ بستیاں بہا لے جاتی ہے۔
اگر گزشتہ چند برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان بار بار تباہ کن سیلابوں کی زد میں آیا ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں نے ایسے ایسے مناظر دکھائے کہ تاریخ لرز گئی۔ جنوبی پنجاب، اندرونِ سندھ اور خیبرپختونخوا کے دُور دراز اضلاع میں کھڑی فصلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، بلکہ گاؤں کے گاؤں ڈوب گئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ یہ محض ایک قدرتی آفت نہ تھی بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اس خونی کھیل کا شاخسانہ تھا جس کا جغرافیہ اب پاکستان کو اپنا مرکزی میدان بنا چکا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا عالمی کاربن کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تباہ کاریوں کی زد میں سب سے آگے ہے۔ اس المیے کی ایک اور وجہ پاکستان کی معاشی و انتظامی کمزوریاں بھی ہیں۔ ایک طرف تو ماحولیاتی انصاف کے اصول کے تحت عالمی طاقتوں کو اس تباہی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تھی لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے اپنی زمین کو خود بھی زخم دیے ہیں۔ جنگلات کا اندھا دھند کٹاؤ، شہروں کی بے ہنگم توسیع، دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات، زرعی زمینوں پر تعمیرات اور آلودگی پھیلانے والے صنعتی مراکز۔ یہ سب عوامل پاکستان کو مزید کمزور بنا رہے ہیں۔
پاکستان کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ بھی موسمیاتی بحران کو سنگین بنارہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب زرعی زمینوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے، پانی کی کمی شدت اختیار کرگئی ہے، جنگلات کو کاٹ کر بستیاں آباد کی جا رہی ہیں اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناقص ذرائع پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ یوں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دو طرفہ ہیں: ایک طرف بیرونی عوامل جیسے کاربن کے عالمی اخراج اور صنعتی ممالک کی لوٹ مار ہے، تو دوسری طرف اندرونی کوتاہیاں اور ناسمجھی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے اور زراعت براہِ راست موسم کے رحم و کرم پر ہے۔ بارشیں کبھی کم اور کبھی زیادہ، پانی کی کمیابی، زمین کی زرخیزی کا خاتمہ، درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ وغیرہ یہ سب وہ مسائل ہیں جنہوں نے کاشتکار کو کنگال کردیا ہے۔ کسان جب زمین سے مایوس ہوتا ہے تو پورا ملک بھوک اور غربت کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں محض ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ یہ ایک سماجی و معاشی بحران بھی ہے جو ہر گھر کے دسترخوان تک پہنچ چکا ہے۔
پاکستان کے شہروں کی حالت بھی کچھ کم تشویشناک نہیں۔ کراچی جیسے ساحلی شہر کو اگر ایک طرف گرمی کی لہریں نگل رہی ہیں تو دوسری طرف سمندر کی سطح بلند ہونے کا خطرہ ہے۔ لاہور اور فیصل آباد جیسے صنعتی مراکز میں آلودگی اس درجے بڑھ چکی ہے کہ سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کا لیول دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس آلودگی نے نہ صرف انسانی صحت کو تباہ کیا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کو بھی تیز کردیا ہے۔ یوں پاکستان کے شہر اور دیہات، ساحل اور پہاڑ، سب ایک ہی وقت میں بحران کے شکنجے میں ہیں۔
خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہونے والی حالیہ تباہی نے آنکھیں کھول کر رکھ دی ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر مستقبل میں ان مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو کیا ہوگا؟
معزز قارئین، اگر اس مسئلے کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ موسمیاتی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرسکیں۔ مگر افسوس کہ عالمی طاقتیں زیادہ تر زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرتی ہیں۔ موسمیاتی فنڈز کے نام پر بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہی روایتی سردمہری دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان کی حالیہ سیلابی آفت کے دوران بھی دنیا نے امداد کا اعلان تو کیا مگر وہ دریا میں پتھر پھینکنے کے مترادف ثابت ہوئی۔ گویا جس قوم نے سب سے کم نقصان پہنچایا وہی سب سے بڑی سزا بھگت رہی ہے اور عالمی برادری تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
پاکستان کے دانشور طبقے اور پالیسی سازوں کو اب اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی وقتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ آئندہ نسلوں کی بقا کا معاملہ ہے۔ اگر آج اس پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں شاید پاکستان کے کئی علاقے رہنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ بلوچستان کی خشک سالی، سندھ کے سیلاب، گلگت بلتستان کے برفانی تودے اور پنجاب کی فضائی آلودگی، یہ سب دراصل مستقبل کے خطرات کا پیش خیمہ ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے محض عالمی برادری پر تکیہ کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اندرونی سطح پر بھی ایسے اقدامات ناگزیر ہیں جن سے زمین اور فضا کو سکون ملے۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پر شجرکاری، آبی ذخائر کی تعمیر و حفاظت، زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شہری منصوبہ بندی میں ماحول دوست پالیسی، صنعتی اخراج پر سخت کنٹرول اور عوامی شعور کی بیداری، یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو اس بحران کو کسی حد تک کم کرسکتے ہیں۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی زمین پر آباد بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی اور یہ خطہ انسانی تاریخ میں ایک اور المیے کے طور پر درج ہوگا۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ حالت ہمیں ایک سبق دیتی ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔
اگر ہم اپنی زمین، اپنے درخت، اپنے دریا اور اپنے موسم کی حفاظت نہیں کریں گے تو یہ سب چیزیں ہمارے خلاف بغاوت کردیں گی اور جب زمین اور موسم بغاوت کرتے ہیں تو انسان کی ساری تدبیریں ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ پاکستان آج اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل چاہتا ہے یا محض وقتی سہولتوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے سب کچھ داؤ پر لگا دینا چاہتا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور شاید بہت دیر نہ ہوجائے۔۔

