Mausamyati Taghayurat, Qehr e Ilahi Ya Insani Kotahiyan?
موسمیاتی تغیرات، قہرِ الٰہی یا انسانی کوتاہیاں؟

گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کی فضائیں ان دنوں آہوں اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں بسی ہوئی چھوٹی چھوٹی بستیاں اور گاؤں محض چند لمحوں کے اندر نیست و نابود ہوگئے۔ بارشوں کے طوفانی سلسلے اور بادل پھٹنے جیسے غیر معمولی واقعات نے زندگی کے رنگ کو ماتم میں بدل ڈالا۔ زمین کھسک گئی، کھڑی فصلیں بہہ گئیں، چھتیں منہدم ہوگئیں، ندی نالے خونخوار دریا بن گئے اور ان سب کے بیچ وہ معصوم انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جنہیں شاید آنے والے کل کے خواب دیکھنے کی بھی مہلت نہ ملی۔
ان المیوں کے بعد ایک مخصوص رویہ حسبِ روایت ہمارے سماج میں جنم لیتا ہے۔ عام محفلوں میں، چائے خانوں پر اور مذہبی واعظوں کے بیانات میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ "خدا کی آفت" ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا غضب ہم پر نازل ہوگیا ہے، یہ بارشیں خدا کا قہر ہیں، یہ بادل ہماری بداعمالیوں کے جواب میں آسمان سے پھٹے ہیں۔ بلاشبہ خدا کی قدرت کامل ہے، وہ جو چاہے کرنے پر قادر ہے۔ لیکن عقلِ انسانی کو یکسر معطل کر دینا اور ہر واقعے کو محض غیبی انتقام سمجھنا نہ صرف سادہ لوحی بلکہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے راہِ فرار بھی ہے۔
اگر خدا کا غضب واقعی انہی پیمانوں پر ماپا جائے تو پھر ذرا فلسطین کی سرزمین کو بھی دیکھ لیجیے۔ غزہ اور مغربی کنارے کے وہ علاقے جہاں برسوں سے آگ اور بارود کی بارش ہو رہی ہے، جہاں محض چند برسوں میں باون ہزار سے زائد نہتے مسلمان شہید کر دیے گئے، وہاں نہ زمین شق ہوئی، نہ بادل آسمان سے پھٹے، نہ زلزلے آئے۔ کیا وہاں کی معصوم عورتیں اور بچے کسی غیبی انتقام کے زیادہ مستحق نہ تھے؟ اگر وہاں آسمان خاموش ہے تو یہاں محض بارشوں اور سیلاب کو قہرِ الٰہی کہنا حقیقت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہماری اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے۔ زمین کی فطری ساخت اور ماحول کا نظام ہم نے خود بگاڑا ہے۔ ہم نے جنگلات اجاڑ دیے، پہاڑوں کو بارود سے چھلنی کر ڈالا، دریاؤں کے راستے میں کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کیں، زمین کو بے دریغ تعمیرات سے بوجھل کر دیا اور پھر توقع رکھی کہ یہ زمین ہماری نافرمانیوں کو ہمیشہ برداشت کرتی رہے گی۔ زمین بھی جواب دیتی ہے اور بادلوں کے بے وقت پھٹنے، ندی نالوں کے طغیانی میں بدل جانے اور پہاڑوں کے زمین بوس ہونے کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کرتی ہے۔
یہ کوئی ان دیکھا فلسفہ نہیں۔ سائنس نے دہائیوں پہلے ہمیں خبردار کیا تھا کہ اگر کاربن کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا، اگر فضاؤں میں زہر گھولنے والے دھوئیں اور صنعتی فضلات کو نہ روکا گیا، اگر جنگلات کے کٹاؤ کو نہ روکا گیا، تو زمین کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ گلیشیئر تیزی سے پگھلنے لگیں گے اور انہی پہاڑوں سے بہنے والے ندی نالے کسی قیامت سے کم نہ ہوں گے۔ مگر ہم نے ان آوازوں کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔
ہم نے ترقی کے نام پر گاڑیوں کا جنگل کھڑا کیا، فضا کو دھوئیں سے آلودہ کیا، دریاؤں اور جھیلوں کو گندے پانی سے بھرا اور زمین کو کنکریٹ کی عمارتوں کے نیچے دفن کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کراچی چند گھنٹوں کی بارش سے ڈوب جاتا ہے، کبھی خیبر پختونخوا کے پہاڑوں سے پتھروں کی بارش ہوتی ہے، کبھی گلگت بلتستان کی وادیوں میں بادل یوں پھٹتے ہیں جیسے قیامت برپا ہوگئی ہو اور ہر بار ہم یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے دیتے ہیں کہ یہ "قہرِ الٰہی" ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہماری اپنی کمائی ہے، ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں۔
انسان نے زمین کو اجاڑ کر اپنی قبریں خود کھودی ہیں۔ جب ہم نے درختوں کے کٹاؤ کو معمولی سمجھا تو ہمیں اندازہ نہ تھا کہ یہی سبزہ بارش کے نظام کو متوازن رکھتا ہے۔ جب ہم نے دریاؤں کے کناروں پر بے ہنگم تعمیرات کیں تو ہمیں یہ احساس نہ ہوا کہ پانی اپنی راہ خود بناتا ہے۔ جب ہم نے پہاڑوں کو معدنیات نکالنے کے لالچ میں چھلنی کیا تو ہمیں یہ سمجھ نہ آئی کہ زمین کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔ اب جب یہ سب عوامل مل کر بربادی کے طوفان لاتے ہیں تو ہم اسے آسمانی عذاب کہہ کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے لگتے ہیں۔
ہمارے مذہب نے بھی بار بار صفائی اور اعتدال پر زور دیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ "زمین میں فساد نہ پھیلاؤ"۔ مگر ہم نے زمین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ آج درخت کاٹنے والے خود اپنی نسل کے مستقبل کاٹ رہے ہیں۔ فیکٹریوں کے دھوئیں میں لپٹی ہوئی فضا ہمارے ہی گھروں کے بچوں کو بیمار کر رہی ہے۔ پہاڑوں کے دامن سے پھوٹنے والے طوفان ہمارے ہی گھر بہا لے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ یہ سب کچھ ہماری اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔
دنیا کے دیگر خطے بھی اسی المیے سے دوچار ہیں۔ افریقہ کے صحراؤں میں پانی کی قلت اور قحط، یورپ میں غیر معمولی گرمی کی لہر، امریکہ کے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان، جاپان میں بار بار آنے والی سونامیاں، سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ زمین اب مزید برداشت کے قابل نہیں رہی۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں پوری انسانیت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہیں، ایک تنبیہ ہیں کہ اگر انسان نے اپنی روش نہ بدلی تو زمین انسان کے لیے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔
پاکستان بدقسمتی سے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہماری حکومتیں عالمی کانفرنسوں میں بلندو بالا دعوے کرتی ہیں مگر زمینی سطح پر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہ ہم نے اربوں درخت لگانے کے وعدے پورے کیے، نہ آلودگی پر قابو پایا، نہ ماحولیاتی قوانین کو مؤثر بنایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی بارش کچھ زیادہ ہو جاتی ہے تو ہمارے ڈیم ٹوٹ جاتے ہیں، ہماری بستیاں ڈوب جاتی ہیں، ہماری سڑکیں بہہ جاتی ہیں اور ہماری زندگیاں ملبے تلے دب جاتی ہیں۔
ہمارا سماجی رویہ بھی کسی المیے سے کم نہیں۔ ہم تباہی کے بعد کچھ دن روتے ہیں، چند دن امدادی کیمپ لگاتے ہیں، میڈیا پر شور برپا ہوتا ہے اور پھر سب کچھ بھول کر اپنی پرانی غفلت کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ نہ ہم سبق سیکھتے ہیں نہ اپنے رویے بدلتے ہیں۔ یوں ہر سال وہی مناظر دہرائے جاتے ہیں اور ہر سال سینکڑوں زندگیاں زمین کی بے بسی کے آگے ہار جاتی ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں اور ترجیحات پر نظرِ ثانی کریں۔ ہمیں جنگلات کی حفاظت کرنی ہوگی، آلودگی پر قابو پانا ہوگا، فطری آبی ذخائر کے راستے بحال کرنے ہوں گے۔ ہمیں پہاڑوں اور دریاؤں کے قدرتی ڈھانچے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ترک کرنی ہوگی اور سب سے بڑھ کر ہمیں ماحولیاتی شعور کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ نئی نسل زمین سے محبت اور اس کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھے۔
یاد رکھیے، یہ زمین خدا کی تخلیق ہے، مگر اس کا بگاڑ انسان کے ہاتھوں ہوا ہے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ یہ "خدائی قہر" نہیں بلکہ ہماری اپنی غفلت اور بے احتیاطی ہے۔ اگر ہم نے آج اپنی روش نہ بدلی تو آنے والے دنوں میں یہ بربادیاں بڑھتی ہی رہیں گی۔ ہماری تاریخ میں یہ باب درج ہو جائے گا کہ ہم نے اپنی ہی اولاد کے لیے زمین کو قبرستان بنا ڈالا۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یا تو ہم زمین کو دوبارہ زندہ کر دیں، یا پھر اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا تماشہ دیکھتے رہیں۔

