Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Masharti Bigar Ke Zimmedar Kon?

Masharti Bigar Ke Zimmedar Kon?

معاشرتی بگاڑ کے زمہ دار کون؟

معاشرہ افراد سے ترتیب پاتا ہے، اور افراد ہی کسی قوم کی شیرازہ بندی کرتے ہیں۔ جب معاشرہ بگڑتا ہے تو یک لخت تہذیب وتمدن کے محل زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی وقار اور ملی عظمت کے ستارے زمین کی پستیوں میں غروب ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک حساس دل سوال کرتا ہے کہ ہمارے اس معاشرتی بگاڑ کے زمہ دار آخر کون ہیں؟ جنہوں نے ہمیں اوج ثریا سے اٹھا کر ذلت و خواری، ناخواندگی و لاچاری اور بے بسی و مجبوری کے گہرے غاروں میں دفن کردیا۔

ہم ایک نظریاتی مملکت کے امین ہیں۔ ہماری رگوں میں ان اسلاف کا خون ہے جن کے کردار کی پاکیزگی اور دینی دنیاوی ترقی کی قسمیں سورج اور چاند کھایا کرتے تھے۔ مگر کس کی نظر بد ہمیں کھا گئی۔ شاید یہ ہم خود ہی ہیں جو اپنا لاشہ اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے اپنی قبریں ڈھونڈ رہے ہیں۔

نہ تو قومیں چند دنوں میں بگڑا کرتی ہیں اور نہ ہی ان کے بگاڑ کے زمہ دار ایک یا دو افراد ہوتے ہیں۔ جب قوم معاشرتی بگاڑ کی آخری حدوں کو چھوتی ہے تو اس کے پس منظر میں کتنے ہی تباہ کن عناصر جاگ رہے ہوتے ہیں، اور پھر ہماری غفلت ان عناصر کو اس قدر طاقتور بنادیتی ہے کہ ہمارا وجود ان کے بوجھ تلے دب کر کرچی کرچی ہونے لگتا ہے۔

آج اگر ہم اپنے معاشرتی ماحول کا جائزہ لیں تو چاروں طرف ظلم و بربریت ہے۔ جوانوں کی جوانی اور بزرگوں کا بڑھاپا سرعام گولیوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ خودکش حملوں کی بدولت اسلام کی تصویر بگاڑ دی جاتی ہے۔ مکروہ چہروں نے اغواء برائے تاوان اور حوا زادیوں کے تقدس سے کھیلنے کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جو حرص و ہوس اور تشدد کا کھیل سرحدوں پر کھیلا جارہا تھا، اب اس کے بارود کی بو ہر شہر اور قصبے میں محسوس ہورہی ہے۔ ڈرگ مافیا، کمیشن مافیا اور موت مافیا سمیت گلی کوچوں میں یہ فرعون حکومت کے مقابلے میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اور سیاستدانوں کو جنگ اقتدار سے فرصت نہیں، اتنا معاشرتی بگاڑ؟

معاشرتی بگاڑ کی ایک مکروہ شکل دیکھیں کہ جب ایک زرعی ملک میں آٹا، چینی، پیاز اور اپنی ہی سرزمین سے عطا ہونے والی سوئی گیس خواب بن جائے۔ جب زبردستی مسلط کی گئی لوڈ شیڈنگ دن کے اجالوں کو رات کے اندھیروں میں بدل دے۔ جب مہنگائی اس قدر ہو کہ باپ اپنے ہاتھوں سے بچیوں کا گلا گھونٹ رہا ہو اور ماں اپنے نونہالوں کو فروخت کررہی ہو۔ جب بچیوں کی عفت سرعام نیلام ہورہی ہو۔ پھر معاشرے کا حسین چہرہ ابلیس کا نقاب اوڑھ لیتا ہے اور ہم سوچتے رہ جاتے ہیں۔

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

کسے دکھائیں کہ سینے پہ زخم کیا کیا ہیں

یہ سارا معاشرتی بگاڑ ہے جس نے عام آدمی سے لے کر مقتدر اعلیٰ تک سب کو اپنی اپنی قیمت لگانے پر مجبور کر دیا۔ جب معاشرتی بگاڑ کے زمہ داروں کا راستہ ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو مجھے ہر راستہ سرمایہ داروں، ملت فروشوں، ملک کی مٹی کو نیلام کرنے والے منافقوں اور تہذیب وتمدن کے حسن اور تعلیم کے وقار کو قدموں تلے روندنے والے ان پالیسی سازوں کے محلات کی طرف جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں خلوت قدوں میں تہذیب وتمدن کی بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ معاشرتی بگاڑ کے نام پر قہقہے برسائے جاتے ہیں۔ مگر عوام کے سامنے یہ اپنے چہرے پر تقدس کا غازہ مل کر پھر ایک نئی صبح روشن کی جھوٹی امید دے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں معاشرتی بگاڑ کی زمہ داری سونپی گئی ہے۔

ہماری قوم کی ذلت سے ان کو کام ہوتا ہے

انہی کے ہاتھ قوم کا سنہرا جام ہوتا ہے

مٹے ملت یا تہذیب وتمدن خاک ہو جائے

وطن میں جو بگاڑ آئے وہ ان کے نام ہوتا ہے

آخر کب تک ہم ان رگوں سے پھوٹنے والے لہو پر ماتم کرتے رہیں گے۔ جب تک ہم اس معاشرتی بگاڑ اور افراتفری کو ختم کرنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے، تب تک معاشرے میں امن و امان کسی صورت بھی قائم نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرنی ہوگی، نہ کہ ہم یہ انتظار کریں کہ سب سے پہلے کون پہل کرتا ہے۔ اس معاشرتی بگاڑ کے زمہ دار ہم ہی ہیں اور ہم نے ہی اسے ٹھیک کرنا ہے۔ اگر ہم اسے ٹھیک نہیں کریں گے تو ہم صرف یہی کہتے رہیں گے کہ۔۔

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں

لگا کر زخم نمک سے مساج کرتے ہیں

غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو

امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

Check Also

Babo

By Sanober Nazir