Maqbooliat Se Makafat e Amal Tak
مقبولیت سے مکافات عمل تک

سیاست محض اقتدار کے حصول کا نام نہیں، بلکہ یہ رویّوں، فیصلوں اور نیتوں کی وہ کڑی آزمائش ہے جہاں ہر لفظ، ہر قدم اور ہر خاموشی بھی ریکارڈ پر آجاتی ہے۔ وقت جب فیصلہ سناتا ہے تو وہ نہ جلسوں کے نعروں سے متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے شور سے۔ وہ بس انسان کو اس کے اپنے کارناموں کے روبرو لا کھڑا کرتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کی سیاست آج اسی مرحلے سے گزر رہی ہے، جہاں ماضی کے فیصلے حال کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مکافاتِ عمل ایک نظریے سے نکل کر زندہ حقیقت بن چکا ہے۔
عمران خان صاحب کا سیاست میں ابھرنا غیر معمولی تھا۔ ایک ایسا شخص جو کرکٹ کے میدان میں قومی ہیرو بن چکا تھا، فلاحی کاموں کے ذریعے عزت سمیٹ چکا تھا، جب سیاست میں آیا تو عوام نے اس میں ایک نجات دہندہ کی جھلک دیکھی۔ کرپشن کے خلاف جنگ، روایتی سیاست دانوں سے بیزاری اور ایک نئے پاکستان کا خواب۔ یہ سب وہ عناصر تھے جنہوں نے نوجوان نسل کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کیا۔
عمران خان صاحب کی باتوں میں ایک سچائی کا تاثر تھا، ایک اخلاقی برتری کا دعویٰ تھا، جو اس وقت کے سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا تھا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیاست میں اخلاقی برتری کا دعویٰ سب سے نازک چیز ہوتی ہے۔ جب آپ خود کو باقی سب سے بہتر، زیادہ ایماندار اور زیادہ محبِ وطن قرار دیتے ہیں تو پھر آپ کے لیے معمولی لغزش بھی ناقابلِ معافی بن جاتی ہے۔ عمران خان صاحب نے یہی راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے اپنے مخالفین کو صرف سیاسی حریف نہیں سمجھا بلکہ اخلاقی مجرم بنا کر پیش کیا۔ اختلافِ رائے کو بدعنوانی، غداری اور سازش کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اس طرزِ سیاست نے وقتی طور پر انہیں فائدہ ضرور دیا، مگر اس کے اثرات دیرپا اور خطرناک ثابت ہوئے۔
اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان صاحب اپنے نعروں کو عملی شکل دیں گے۔ مگر یہاں آ کر سیاست کی وہی پیچیدگیاں سامنے آئیں جنہیں وہ ماضی میں آسانی سے نظر انداز کر دیتے تھے۔ معیشت کے مسائل، خارجہ پالیسی کی نزاکتیں، ریاستی اداروں کے ساتھ توازن اور کرپشن کے خلاف جنگ، یہ سب معاملات محض جوش اور نیت سے حل نہیں ہوتے۔ یہاں تدبر، برداشت اور سیاسی بالغ نظری درکار ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان صاحب کی حکومت میں اکثر فیصلے جذبات کے زیرِ اثر ہوتے دکھائی دیے۔ کبھی ایک دن میں بیانیہ بدل جاتا، کبھی اتحادیوں کو سرِ عام ذلیل کیا جاتا، کبھی اپوزیشن جماعتوں کو چور ڈاکو، چور ڈاکو کہنے کا راگ الاپا جاتا اور کبھی اداروں سے ٹکراؤ کو عوامی مقبولیت کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں مکافاتِ عمل کی بنیاد رکھی گئی۔ جس پارلیمان کو انہوں نے خود کمزور کیا، وہی ان کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوئی۔ جن سیاسی روایات کا انہوں نے مذاق اڑایا، انہی کی کمی نے انہیں تنہا کر دیا۔ سیاست میں دروازے بند کرنا آسان ہوتا ہے، مگر جب خود باہر نکلنا پڑے تو پھر وہی بند دروازے دیوار بن جاتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے مکالمے کے بجائے محاذ آرائی کو ترجیح دی اور یہی محاذ آرائی وقت کے ساتھ ان کے لیے بوجھ بنتی چلی گئی۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کا رویہ مزید سخت ہوتا چلا گیا۔ شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے مکمل طور پر سازش قرار دینا، ہر ادارے کو مشکوک بنانا اور اپنے سوا سب کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنا، دراصل اسی سیاسی عدم برداشت کی علامت تھی جو ان کے پورے سفر میں جھلکتی رہی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے کہ پاکستانی سیاست میں سازشیں ہوتی رہی ہیں، مگر یہ مان لینے سے انکار کہ اپنی غلطیاں بھی اس انجام کا حصہ ہیں، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
مکافاتِ عمل کا سب سے تلخ پہلو یہی ہوتا ہے کہ انسان کو وہی رویّے سہنے پڑتے ہیں جو وہ دوسروں کے لیے اختیار کرتا رہا ہو۔ عمران خان صاحب نے ماضی میں احتساب کے نام پر تضحیک کو جائز قرار دیا، آج وہی تضحیک ان کے لیے آزمائش بن چکی ہے۔ انہوں نے عدالتوں پر تنقید کو مقبول سیاست کا حصہ بنایا، آج وہی عدالتیں ان کے مقدر کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے اداروں کو عوامی دباؤ کے ذریعے جھکانے کی کوشش کی، آج وہی دباؤ ان کے خلاف ایک دیوار بن چکا ہے۔ یہ تحریر عمران خان صاحب کے خلاف نفرت یا ان کے حق میں ہمدردی پیدا کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک اصولی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
بطور پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے میرا دعویٰ ہے کہ سیاست میں کوئی بھی فرد، خواہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، قانون، آئین اور اداروں کے ڈسپلن سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ جو سیاست دان خود کو وقت کا نجات دہندہ سمجھنے لگے، وہ اکثر وقت کی بے رحمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کا المیہ یہی ہے کہ انہوں نے خود کو ایک سیاسی رہنما کے بجائے ایک اخلاقی منصف کے طور پر پیش کیا اور یہی کردار آخرکار ان کے لیے بوجھ بن گیا۔
تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جو نیک نیتی کے دعوے کے ساتھ آئے، مگر طاقت کے نشے میں توازن کھو بیٹھے۔ عمران خان صاحب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی نیت پر بحث کی جا سکتی ہے، مگر ان کے فیصلوں کے نتائج سے انکار ممکن نہیں۔ مکافاتِ عمل کسی انتقام کا نام نہیں، یہ محض قدرت کا وہ اصول ہے جو انسان کو اس کے اپنے کیے کا آئینہ دکھاتا ہے۔
آج عمران خان صاحب جس مقام پر کھڑے ہیں، وہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ سیاست میں الفاظ بھی امانت ہوتے ہیں، طاقت بھی اور عوامی اعتماد بھی۔ جو ان سب کو وقتی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، وہ ایک دن خود اسی بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ شاید یہی وہ لمحہ ہے جہاں عمران خان صاحب کی کہانی ایک فرد سے نکل کر ایک اجتماعی سبق بن جاتی ہے کہ سیاست میں سب سے مشکل کام اقتدار حاصل کرنا نہیں، بلکہ اقتدار میں رہ کر اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہوتا ہے۔

