Wednesday, 24 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Kon Dehshatgard Hai? Taqat Ya Amal?

Kon Dehshatgard Hai? Taqat Ya Amal?

کون دہشت گرد ہے؟ طاقت یا عمل؟

یہ سوال آج کسی یونیورسٹی کے سیمینار میں نہیں پوچھا جا رہا، بلکہ یہ سوال غزہ کے ملبے کے نیچے دبے بچوں کی لاشیں پوچھ رہی ہیں۔ یہ سوال اُن ماؤں کی چیخوں میں ہے جو اپنے بچوں کے جسم کے ٹکڑے پلاسٹک کے تھیلوں میں سمیٹ رہی ہیں۔ یہ سوال اُن باپوں کی خاموش آنکھوں میں ہے جو قبر کھودتے ہوئے خود بھی دفن ہو چکے ہیں۔ دنیا ہمیں یہ سکھاتی آئی ہے کہ دہشت گرد وہ ہوتا ہے جو نقاب اوڑھے، ریاست کے بغیر ہو، جس کے پاس پاسپورٹ نہ ہو، جو جہازوں میں نہ بیٹھتا ہو بلکہ پہاڑوں اور کھنڈرات میں رہتا ہو، ایک الگ دنیا میں بستا ہو لیکن اگر یہی تعریف درست ہے تو پھر غزہ میں جو ہو رہا ہے، وہ کیا ہے؟

اسرائیل کہتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کر رہا ہے۔ تاریخ کے صفحات کھول کر دیکھیے، ہر ظالم نے یہی جملہ استعمال کیا ہے۔ کوئی بھی ظلم، ظلم کے نام پر نہیں کیا جاتا۔ ہر ظلم "سیکیورٹی، قومی مفاد اور دفاع" کے الفاظ میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کو اپنی سلامتی کا حق ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا سلامتی کے نام پر بچوں کو مارنا جائز ہو جاتا ہے؟ کیا ہسپتال بمباری کے بعد بھی ہسپتال رہتا ہے یا دشمن کا اڈہ بن جاتا ہے؟ کیا بھوک، پیاس اور ناکہ بندی کسی فوجی تنظیم کو نہیں بلکہ پورے کے پورے شہر کو سزا دینا نہیں؟

غزہ کوئی فوجی اڈہ نہیں، یہ ایک کھلی جیل ہے۔ ایک ایسی جیل جہاں آسمان بھی قیدی ہے اور سمندر بھی۔ جہاں بچہ پیدا ہوتے ہی دشمن قرار پاتا ہے۔ جہاں ماں کا دودھ بھی مشکوک ہے اور پانی بھی ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ اگر داعش یا حماس کسی شہر کو گھیر کر پانی بند کر دیتی، بجلی کاٹ دیتی، خوراک روک لیتی اور پھر بم برسا کر کہتی کہ "ہم صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، یا اپنے دفاع کیلئے ایسا کررہے ہیں" تو کیا دنیا خاموش رہتی؟

نہیں۔ تب اسے دہشت گردی کہا جاتا اور درست کہا جاتا اور کہا جارہا ہے۔ داعش نے جو کیا، وہ وحشت تھی۔ بے گناہوں کو مارنا، خوف پھیلانا، لاشوں کو پیغام بنانا۔ لیکن اگر یہی کام ایک جدید نام نہاد ریاست کرے، جدید ہتھیاروں کے ساتھ، جدید میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے، تو کیا اس کا نام بدل جاتا ہے؟ کیا مرنے والے بچے کی لاش اس لیے کم لاش ہو جاتی ہے کہ میزائل پر ریاست کا جھنڈا لگا تھا؟ یہاں اصل مسئلہ تعریف کا نہیں، دوہرے معیار کا ہے۔ دہشت گردی کو عمل سے نہیں، شناخت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اگر قاتل کمزور ہو تو وہ دہشت گرد ہے، اگر قاتل طاقتور ہو تو وہ "ریاست" ہے۔ اگر ظلم بندوق سے ہو تو جرم، اگر ایف-35 سے ہو تو پالیسی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، غزہ میں اجتماعی سزا دی جا رہی ہے، انسانی قوانین پامال ہو رہے ہیں۔ مگر یہی اقوام متحدہ جب سلامتی کونسل میں جاتی ہے تو ویٹو کے سامنے خاموش ہو جاتی ہے۔ قانون وہی ہے، مگر اس کی زبان طاقت کے سامنے گنگ ہو جاتی ہے۔

یہاں ایک اور منافقت بھی قابلِ ذکر ہے۔ مغرب آزادی اظہار، انسانی حقوق اور زندگی کے تقدس پر لیکچر دیتا ہے۔ لیکن غزہ کے بچے ان اصولوں میں شامل نہیں۔ ان کے لیے الفاظ بدل جاتے ہیں، لہجہ نرم ہو جاتا ہے اور ضمیر عارضی تعطیل پر چلا جاتا ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے بات کریں تو جو مظلوم اپنے گھر میں، بغیر ہتھیار کے، بغیر جرم کے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ لیکن اگر کوئی مذہب کو ایک طرف رکھ دے، تو بھی انسانی اخلاقیات یہی کہتی ہیں کہ معصوم کا قتل، قتل ہی ہوتا ہے۔ چاہے قاتل کسی بھی وردی میں ہو۔ یہ کہنا کہ "اسرائیل بھی داعش جیسا ہے" شاید سفارتی طور پر سخت جملہ ہے، مگر اخلاقی طور پر یہ سوال ناگزیر ہے کہ اگر عمل ایک جیسا ہے تو نام مختلف کیوں؟ اگر نتیجہ ایک جیسا ہے، لاشیں، یتیم، تباہ شہر، تو پھر مجرم بدل کیسے گیا؟

یہ کالم کسی یہودی کے خلاف نہیں، یہ کسی ریاست کے وجود کے خلاف نہیں، یہ کسی ایک فریق کی اندھی حمایت میں نہیں۔ یہ صرف اس سچ کے ساتھ کھڑا ہے جو ملبے کے نیچے دبا ہوا ہے۔ ظلم کو ظلم کہنا اگر انتہا پسندی ہے تو پھر انسانیت بھی انتہا پسندی ہے۔ تاریخ ایک دن فیصلہ کرے گی۔ وہ دن ضرور آئے گا جب آج کے "Self-defence" کو کل کے جنگی مجرم کے نام سے پکارا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس فیصلے تک کتنے بچے دفن ہو چکے ہوں گے؟

آخر میں سوال وہی ہے جو آغاز میں تھا۔

اگر داعش دہشت گرد ہے کیونکہ وہ بے گناہوں کو مارتا ہے، تو پھر جو غزہ میں ہو رہا ہے وہ کیا ہے؟ یہ سوال آپ کا نہیں، میرا نہیں، یہ سوال انسانیت کا ہے۔

Check Also

Bara Zimmedar Kon Tha?

By Zulfiqar Ahmed Cheema