Kalabagh Dam, Qaumi Ittefaq e Raye Ki Mutlashi Mansuba
کالا باغ ڈیم، قومی اتفاق رائے کا متلاشی منصوبہ

پاکستان کی تاریخ کے اوراق جب پلٹے جاتے ہیں تو ایک ہی کرب انگیز حقیقت بار بار آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے کہ اس ملک کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ پانی جو حیات کی اساس ہے، جس کے بغیر نہ زراعت پنپ سکتی ہے، نہ صنعت چل سکتی ہے اور نہ ہی انسان کی بقا ممکن ہے۔ پاکستان چونکہ زرعی ملک ہے، اس کی معیشت کی شہ رگ پانی ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا ہمیشہ سے اس خطۂ ارضی کے لیے رزق رسانی کے ضامن رہے ہیں، لیکن افسوس کہ ہم نے ان دریاؤں کے پانی کو سنبھالنے کے لیے وہ اقدامات نہ کیے جو ایک دور اندیش قوم کرتی۔ کالا باغ ڈیم انہی محرومیوں اور کوتاہیوں کی سب سے بڑی علامت ہے۔
یہ ڈیم محض ایک آبی ذخیرہ نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی، خود کفالت اور بقا کا استعارہ ہے۔ مگر سیاسی اختلافات، صوبائی تعصبات اور مفاد پرستی کے شعلے اس قدر بھڑکے کہ اس عظیم منصوبے کو ہمیشہ متنازع بنا کر سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ حالیہ ایام میں جب دریائے راوی، ستلج اور چناب نے پنجاب کے وسیع علاقے کو نگل لیا، جب گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، جب کھڑی فصلیں دریا کے بے رحم ریلوں میں بہہ گئیں، جب مائیں اپنے بچوں کی لاشیں تھام کر دہائیاں دیتی رہیں، تب ایک بار پھر یہ سوال قوم کے ذہنوں کو کچوکے دینے لگا کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو کیا یہ مناظر دیکھنے کو ملتے؟
علی امین گنڈاپور جیسے سیاستدان نے حال ہی میں اس منصوبے کی حمایت کرکے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کون سے عناصر ہیں جو ہمیشہ سے اس ڈیم کی مخالفت کرتے آئے ہیں؟ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں خصوصاً بی این پی (بلوچستان نیشنل پارٹی) اور دیگر چھوٹی جماعتیں اس ڈیم کو صوبوں کے درمیان نفرت اور تقسیم کا استعارہ قرار دیتی ہیں۔ اسی طرح سندھ کی بعض سیاسی قیادت کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم سندھ کو ریگستان بنا دے گا۔ خیبر پختونخوا کی کچھ آوازیں بھی اس منصوبے کو صوبے کے بعض اضلاع کے لیے خطرہ بتاتی رہیں۔
یوں صوبائی سیاست نے اس قومی منصوبے کو ہمیشہ یرغمال بنا کر رکھا۔ مگر حقائق ان دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف سندھ اور بلوچستان کو زیادہ پانی میسر آئے گا بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے بے شمار علاقے بھی زرعی انقلاب دیکھیں گے۔ ڈیم کے بننے سے پانی کے ذخائر محفوظ ہوں گے، بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور سیلابی ریلے قابو میں آجائیں گے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان کے سیاستدان اپنے وقتی سیاسی مفادات اور ووٹ بینک کی حرص میں قوم کو اس ابدی نعمت سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
یہ امر بھی باعث صد افسوس ہے کہ بھارت آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔ دریائے ستلج اور بیاس پر بھارت کے منصوبے اس حقیقت کو آشکار کر چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے اپنے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی نہ اپنائی تو آنے والے برسوں میں قحط کی ہولناکیاں ہمارے دروازے پر دستک دیں گی۔ حالیہ دنوں میں بھارت نے جب دریائے ستلج، چناب اور راوی میں پانی چھوڑا تو پنجاب کے کھیت کھلیان، بستیاں اور دیہات تباہی کا شکار ہو گئے۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو یہ پانی بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ محفوظ بھی ہو جاتا اور سیلابی ریلا ہماری زمینوں کو کھا نہ جاتا۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سیاستدان ہمیشہ یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ یہ منصوبہ کسی ایک صوبے کے مفاد میں اور باقی صوبوں کے نقصان میں ہے، لیکن ماہرین کی مستند رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ اور بلوچستان کو ہوگا۔
دریائے سندھ میں بہنے والا پانی آج ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے، مگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے یہی پانی زراعت کو سیراب کرے گا۔ سندھ کو اس سے اضافی پانی ملے گا اور اس کی بنجر زمینیں شاداب ہو سکیں گی۔ بلوچستان، جو ہمیشہ پانی کی کمی کا شکار رہا ہے، اس منصوبے سے سب سے زیادہ فیض یاب ہوگا۔ پھر سوال یہ ہے کہ مخالفت کی اصل وجہ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مخالفت کے پیچھے دو بڑے عوامل ہیں: ایک سیاسی اور دوسرا غیر ملکی۔ سیاسی اس لیے کہ پاکستان کے بعض سیاستدانوں نے ہمیشہ صوبائی تعصب کو ہوا دے کر اپنے ووٹ بنک کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ وہ عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم اگر بن گیا تو ہمارا صوبہ نقصان اٹھائے گا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
غیر ملکی عنصر اس لیے کہ دشمن ممالک خصوصاً بھارت کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے آبی وسائل پر قابو پا لے۔ وہ پاکستان کو پانی کی قلت میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ملک معاشی اور زرعی طور پر کمزور رہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ قوم یہ سوال کرے کہ آخر کب تک ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کی تنگ نظری کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے؟ کب تک ہم سیلابوں میں اپنے پیاروں کو کھوتے رہیں گے؟ کب تک ہماری کھڑی فصلیں بہتی رہیں گی؟ کب تک ہم اندھیروں میں ڈوبے رہیں گے جب کہ ہمارے پاس سستی اور وافر بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ موجود ہے؟ کالا باغ ڈیم کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے، مگر اس حقیقت کو جھٹلانے والے دراصل قوم کو تباہی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
آج جب پنجاب کے دیہات سیلاب کے طوفانی ریلوں میں برباد ہو چکے ہیں بلکہ غرق ہوچکے ہیں۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں ہر سال سیلابی لہریں انسانی جانیں نگل لیتی ہیں، تب کالا باغ ڈیم کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ یہ محض ایک آبی منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کا معرکہ ہے۔ اس کے بغیر پاکستان کا مستقبل ہمیشہ غیر یقینی کے دھندلکوں میں لپٹا رہے گا۔
سیاستدانوں کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ قومی منصوبے صوبائی تعصبات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو قحط، بھوک اور سیلابی آفات سے بچانا ہے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہماری آئندہ نسلیں ہمیں کوستے ہوئے یہی سوال کریں گی کہ جب موقع تھا تو تم نے ڈیم کیوں نہ بنایا؟ کیا تم نے اپنی ذاتی سیاست کے لیے پورے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا دیا؟ کالا باغ ڈیم کے بغیر پاکستان کی سلامتی ایک خواب ہے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے قوم کو متحد ہونا ہوگا۔
علی امین گنڈاپور کی حمایت ایک خوش آئند آغاز ہے، مگر اس آواز کو بڑھانے کے لیے ہر محب وطن شہری کو میدان میں آنا ہوگا۔ بی این پی اور دیگر جماعتیں اپنی مخالفت جاری رکھیں گی، مگر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب قومیں متحد ہو جائیں تو کوئی رکاوٹ ان کے راستے میں حائل نہیں رہتی۔ ریاست کو اب فیصلہ کرنا ہوگا یا تو ہم صوبائی سیاست کے کھیل میں الجھ کر اپنی بقا کو داؤ پر لگا دیں، یا پھر جرأت کا مظاہرہ کرکے وہ قدم اٹھائیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو قحط اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم صرف ایک ڈیم نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کا ضامن ہے اور اس کی تعمیر ہی وہ معرکہ ہے جس کے بغیر ہمارا ملک مستقبل کی منزلیں طے نہیں کر سکتا۔

