Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Iqtidar Ka Aaina Aur Siyasatdan Ka Chehra

Iqtidar Ka Aaina Aur Siyasatdan Ka Chehra

اقتدار کا آئینہ اور سیاست دان کا چہرہ

اقتدار ایک ایسا آئینہ ہے جو سیاست دان کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ سیاست دان جب عوام کے درمیان ہوتا ہے تو اُس کے لہجے میں مٹھاس، باتوں میں انکسار اور چہرے پر خلوص کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب وہی شخص اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن ہوتا ہے تو نہ لہجے میں وہ مٹھاس باقی رہتی ہے، نہ نگاہ میں وہ اپنائیت اور نہ ہی دل میں وہ احساس جو کبھی عوام کے دکھ درد کا ہمراز ہوا کرتا تھا۔

یہ تضاد دراصل اُس بیماری کا مظہر ہے جو ہماری سیاست کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ سیاست دان جب اقتدار سے باہر ہوتا ہے تو خود کو عوام کا خادم کہتا ہے، اُن کے ساتھ بیٹھتا ہے، اُن کے دکھ سنتا ہے، اُن کے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھتا ہے اور وعدے کرتا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر سب کچھ بدل دے گا۔ اُس وقت اُس کے لہجے میں عاجزی اور اُس کے عمل میں مساوات کا گمان ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی اقتدار کا ہالہ اُس کے گرد بنتا ہے، وہی سیاست دان عوام سے اتنا دور چلا جاتا ہے کہ اُس کی گاڑیوں کے شیشوں پر لگی کالک اُس کے اور عوام کے درمیان دیوار بن جاتی ہے۔

اقتدار کا المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کے باطن کو بے نقاب کرتا ہے۔ جن کے دل میں خدمت کا جذبہ ہو، اُن کے لیے اقتدار عبادت بن جاتا ہے مگر جن کے دل میں مفاد کا بیج بویا گیا ہو، اُن کے لیے اقتدار عیش و عشرت کا سامان بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ کبھی خاکی لباس میں گلیوں میں گھومتے تھے، وہ اقتدار میں آتے ہی حفاظتی قلعوں اور قافلوں میں مقید ہو جاتے ہیں۔ عوام سے اُن کا رابطہ فاصلہ بن جاتا ہے اور خدمت کا وعدہ ایک سیاسی نعرہ۔ سوال یہ نہیں کہ سیاست دان بدل جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ وہ بدلتا کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اقتدار کو خدمت نہیں بلکہ بالادستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

یہاں عہدہ حاصل کرنے والا خود کو عوام سے برتر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ جس تخت پر بیٹھتا ہے، اُسے گمان ہوتا ہے کہ اُس تخت کا رُعب عوامی محبت سے نہیں بلکہ اس کے ذاتی کمال سے قائم ہے۔ یہی غرور اُس کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ نظام کی کمزوری ہے۔ جس معاشرے میں احتساب کی طاقت کمزور ہو، وہاں اقتدار جواب دہ نہیں رہتا۔ جب ایک وزیر یا نمائندہ یہ جان لے کہ اُس سے کوئی سوال نہیں کرے گا، تو وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔ یہی احساس اُسے عوام کی خدمت سے ہٹا کر اپنی آسائشوں کی طرف لے جاتا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیاں، پرتعیش بنگلے، پروٹوکول کے قافلے یہ سب اُس کے لیے اقتدار کی پہچان بن جاتے ہیں۔ عوام کی تکلیف اُس کے لیے صرف خبر بن کر رہ جاتی ہے، احساس نہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب سیاست ایک مقدس خدمت سے نکل کر ذاتی مفاد کا کاروبار بن جاتی ہے۔ سیاست دان عوام کا نمائندہ نہیں رہتا، بلکہ اقتدار کا پروردہ بن جاتا ہے۔ اُس کی گفتگو میں وعدے تو باقی رہتے ہیں، مگر احساس مر جاتا ہے۔ اُس کے چہرے پر تبسم تو رہتا ہے، مگر دل میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاست کا بحران دراصل کردار کا بحران ہے۔ آج سیاست میں داخل ہونے والا شخص عوام کی خدمت کے جذبے سے زیادہ، اقتدار کی چمک سے متاثر ہو کر آتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سیاست کے ذریعے عزت، دولت اور شہرت حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ حقیقی سیاست وہ ہے جو عوام کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھے، جو اقتدار کو امانت جانے اور جو طاقت کو ذمہ داری سمجھے۔

ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ عوام خود بھی اس کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم نے سیاست دانوں کو "رہنما" کی بجائے "نجات دہندہ" بنا دیا ہے۔ ہم اُنہیں دیوتا سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں، سوال نہیں کرتے، جواب نہیں مانگتے۔ یہی اندھی عقیدت اقتدار کے ایوانوں میں غرور کو جنم دیتی ہے۔ جب عوام سوال کرنا چھوڑ دیتی ہے تو حکمران جواب دینا بھول جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کا چہرہ اُس کے اصل مفہوم سے آشنا کیا جائے۔ سیاست دراصل "عوامی خدمت" کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ مشن ہے جو دل کی پاکیزگی، نیت کی صداقت اور عمل کی دیانت چاہتا ہے۔ اگر اقتدار خدمت کے بغیر حاصل کیا جائے تو وہ زہر بن جاتا ہے اور اگر خدمت کے جذبے کے ساتھ حاصل کیا جائے تو وہ رحمت بن جاتا ہے۔

ہمیں ایسے رہنما درکار ہیں جو اقتدار کو دولت کا وسیلہ نہیں بلکہ امانت سمجھیں۔ جو عوام سے وہی محبت اقتدار کے بعد بھی رکھیں جو اقتدار سے پہلے تھی۔ جو اپنی گاڑیوں کے شیشے کالے کرنے کے بجائے اپنے دل کو شفاف رکھیں۔ جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھیں، نہ کہ اُن کے کندھوں پر سوار ہوں۔ اقتدار کی اصل خوبی سادگی ہے اور سادگی ہی قیادت کی پہچان۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جتنی بڑی کرسی ہوتی ہے، اُتنا ہی بڑا فاصلہ عوام سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ فاصلہ ختم کیے بغیر سیاست کبھی عبادت نہیں بن سکتی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اقتدار کا نشہ وقتی ہے، مگر کردار کی خوشبو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ وہ سیاست دان جو عوام کے دلوں میں جیتتا ہے، وہ کبھی ہارتا نہیں اور جو اقتدار میں رہ کر بھی عوام سے کٹ جائے، وہ دراصل تخت پر بیٹھا ہوا شکست خوردہ شخص ہوتا ہے۔

اقتدار آئینہ ہے، جو چہرہ دکھاتا ہے وہ ہم سب کے لیے سبق ہے۔ سیاست دان اگر چاہے تو اس آئینے میں اپنے اندر کا خادم دیکھ سکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو صرف بادشاہ کا عکس۔ فیصلہ اُس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عوام کا حصہ بن کر جئے یا اُن کے سروں پر حکومت کرکے مر جائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam