Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Hasrat Hi Rahi

Hasrat Hi Rahi

حسرت ہی رہی

مغموم فضائیں، سوگوار ماحول، اور لاشوں سے مس کرتی ہوئی مٹی بھی اب افسردہ ہو چکی ہے۔ ان غمگین فضاؤں اور اس سوگوار ماحول کا، لاشوں کے نظارے اور مدد کو پکارنے والے بچوں کی آنکھوں کی معصومیت بھی اب نہیں دیکھی جاتی۔ پانچ فروری، محض یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے موسوم کرنا کوئی بڑا کام نہیں۔ اگر دنوں کو مخصوص کرنے سے کچھ حاصل ہوتا، تو ہر سال یوم مزدور منانے سے مزدوروں کا ہونے والا استحصال ختم ہو جاتا۔

اگر دن مخصوص کرنے سے کچھ حاصل ہوتا، تو چودہ اگست کا دن منانے کا مقصد سمجھ میں آجاتا اور اگر دن منانے سے ہی کچھ حاصل ہوتا، تو جناحؒ اور اقبالؒ کے ایام منانے پر زور دینے کی بجائے، ان کے اقوال اور فرمودات پر عمل کر کے فیض حاصل کیا جاسکتا۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میں اپنا لہو بہاتے کتنے سال ہو گئے، اور ہم کتنے سالوں سے یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے دن منا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔

کیا ہمارے اندر اپنے مسلمان بھائیوں کے لہو کی کشش نہیں ہے یا ان کی آواز میں "وہ جیل میں قید عورت کی اپنے سپہ سالار کو دی جانے والی آواز" جیسا دم اور برہم نہیں ہے؟ قصے کہانیاں لکھنے کا میں عادی نہیں، نہ ہی شوق رکھتا ہوں اور نہ ہی حقائق کو مسخ کرنا میرا شیوہ ہے، جو حقیقت ہو وہ سب کے سامنے عیاں کر دیتا ہوں۔

بھارتی بزدل فوج کا ظلم و ستم بھی بڑھتا جا رہا ہے اور کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں، اور گرتی لاشوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اقوامِ عالم کے ان فتنہ گروں کو اب بھی وہ مسلمان پکار رہے ہیں، جو اقوام متحدہ میں بیٹھ کر کشمیر میں ہونے والے حالیہ قتال کا جواز تراش رہے ہیں۔ لیکن زر پرستی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ،ان کی ارواح تھکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اتنے سالوں سے کچھ کیوں نہیں کیا، اور سوال یہ بھی نہیں ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آواز، ان کی پکار اتنے سالوں سے ان محلات میں کیوں نہیں گونجی۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے اتنے سالوں سے کشمیر کا مقدمہ ان تاغوطی قوتوں کے سامنے پیش کیوں نہ کیا؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ ہم نے اتنے سالوں سے اغیار کو تو چھوڑیں، مسلم ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کیلئے کچھ کیوں نہ کیا؟ ہم نے صرف اور صرف نعرے لگائے، احتجاج کئے جس کا کوئی بھی اثر اس انتہا پسند مودی کو نہیں پڑتا اور نہ ہی پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا سب سے اہم مرحلہ مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت، کشمیر کی وجہ سے ہمیں بلیک میل کر رہا ہے۔ اور ہمارا ہی پانی چوری کر رہا ہے۔

انتہا پسند بھارت نے ہمارے ہی دریاؤں پر ڈیم بنا ڈالے ہیں، جس سے پاکستان کی بھی سالمیت کی خطرہ ہے۔ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ شہ رگ کے بغیر جسم کا وجود کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری شہ رگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ہم صرف جینے کی اداکاری کر رہے ہیں، وہ بھی بغیر معاوضہ کے۔ آج نہتے کشمیری مسلمانوں پر بھارت کے بدترین مظالم کا سلسلہ رکوانے، پاکستان اور بھارت دونوں کے تعلقات معمول پر لانے، برِصغیر میں امن و استحکام کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ،پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا بہت ضروری ہے۔

کیونکہ مسئلہ کشمیر بہت درینہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہیں۔ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں۔ کیونکہ

"جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے۔

جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی۔"

اسے لئے تمام امن پسند ممالک کو اس مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ ان کو بھی سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ امن پسندی ہی میں بھلا ہے۔

پاکستان کو اپنی سالمیت برقرار رکھنے کیلئے، اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانا ہو گا۔ اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ،اقوام متحدہ میں بیٹھی ان زندہ لاشوں کے سامنے، کشمیر کا مقدمہ پیش کرنا ہو گا۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل جنگ نہیں۔ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو صرف اور صرف مذاکرات ہی ہیں ،یا استصواب رائے۔ جو کشمیری مسلمانوں کی مرضی کے مطابق ہو تاکہ وہ آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

کاش! ہم عملی طور پر کام کرتے ہوئے چھپن اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ،مسلمانوں کی سسکتی اور غمناک آواز کو خوشیوں اور مسرتوں میں بدل سکتے۔کاش! ہم دن منانے کی بجائے، اقوام متحدہ کے ان فتنہ گروں کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے۔

کاش! کہ کشمیری مسلمانوں کی قربانیاں آزادی کی قیمت چکا سکتیں۔ کاش! کہ ہم ان شوبدے بازوں کو اور دنیا کو کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستان سنانے کی بجائے، ان کو عملی تصویر اور بھارت کا اصلی چہرہ دکھا سکتے۔

کاش! کہ ہم یوم یکجہتی کشمیر منانے کی بجائے یوم آزادی کشمیر منا رہے ہوتے۔ کاش! کہ ایسا ہو سکتا۔ کاش۔ اے کاش!

Check Also

Aik Mulaqat Ka Sawal Hai

By Najam Wali Khan