Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Deewar e Khastagi Hoon

Deewar e Khastagi Hoon

دیوار خستگی ہوں

اور ایک بار پھر سے پاکستان کے ماضی پر نظر دوڑانے کیلئے اکسایا جا رہا ہے۔ ایک بار پھر سے ماضی کے تلخ تجربات سے ناسیکھتے ہوئے حکومت کی تبدیلی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ میں ایک پاکستانی ہونے کے ناتے اور بطور ایک طالب علم ہونے کے تحت اپنے الفاظ، اپنے جذبات، اور خیالات کا دلائل کےساتھ اظہار کر سکتا ہوں اور اپنے مطالعہ کو سب کے سامنے عیاں کر سکتا ہوں۔

سر زمینِ پاکستان اس وقت کئی مسائل اور آزمائشوں سے دوچار ہے۔ صرف سیاست ہی اس کا موضوع سخن نہیں ہونا چاہیے۔ اور بھی کئی مسائل ہیں جن کا احاطہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مہنگائی، بےروزگاری، کرپشن، نوکریوں کا فقدان، غربت میں اضافہ، عدل و انصاف کی فراہمی، لوگوں کی جان و مال کا تحفظ، دہشتگردی کے خلاف جنگ، مافیا کے خلاف کاروائی، منافع خور طبلچیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، لوگوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی، اور دیگر کئی مسائل زیر ِگردش ہیں۔ جن کا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے اور جو حکمرانوں کا فرض بھی ہے۔

یہ آپ سر زمین پاکستان کی قسمت کہہ لیں یا اس کی بد قسمتی۔ جس روز سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ اسی روز سے اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آج تک ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ جو ملک کی خاطر کام کرتے تھے، بلکہ اس کےلئے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرتے تھے وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں اور جو کام نہیں کرتے تھے وہ آج کہیں کے نہیں ہیں۔ ستم ظریفی وقت دیکھیں، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی قائد کی شفقت کا ہاتھ اس ملک سے اٹھ گیا، اس کے بعد لیاقت علی خاں کو جلسہ گاہ میں شہید کر دیا گیا۔

اس کے بعد محمد علی بوگرہ فارمولا کو دفن کردیا گیا، اس کے بعد ملک کو مارشل لاء کے ادوار سے گزرنا پڑا، اس کے بعد ملک کو دو لخت بھی ہوتے دیکھا، اس کے بعد ایک منتخب حکومت کو گھر جاتے بھی دیکھا، اس کے بعد عدالتوں کو تالے بھی لگتے دیکھے، اس کے بعد بارود کے نخلستانوں میں دھوئیں کے بادلوں کو موت برساتے بھی دیکھا، اس کے بعد ملک کو دھرنوں کی لپیٹ میں آنا پڑا، اور آج ایک بار پھر ملک میں حکومت کی تبدیلی کے نام سے جلسے اور لانگ مارچ ہو رہے ہیں۔ جمہوریت، جمہوریت کے نام پر ملک کی نام نہاد ترقی کو روکا جارہا ہے اور معیشت کو کمزور سے کمزور کیا جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا لیاقت علی خاں سے لے کر آج تک، پاکستان میں کسی بھی وزیراعظم کو حکومت کرنے کیلئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی؟ کیا پاکستان میں ہونے والے پہلے الیکشن سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک، الیکشن جیتنے والی جماعت کی جیت کو دل سے قبول کیا گیا؟ کیا پاکستان کے الیکشن میں ہارنے والی جماعت نے دل سے ہار تسلیم کی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔ تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو سب کچھ دکھائی دے گا کہ کسی بھی دور میں ملک میں دھرنوں، جلسوں، لانگ مارچ، اور توڑ پھوڑ کی سیاست سے اجتناب نہیں کیا گیا۔

پارلیمنٹ اور پی ٹی وی دفاتر پر دھاوا بول دیا گیا، تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر دور میں پاک فوج کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بلا وجہ کا ایمپائر کہا گیا، بلاوجہ کی خلائی مخلوق بنا دیا گیا اور آج پھر پاکستان اسی جلسوں، لانگ مارچ اور مفاد پرست سیاست کی نہج پر پہنچ چکا ہے۔ سیاست چیز ہی ایسی ہے جن کے خلاف انسان ماضی میں باتیں کرتا ہے۔ اپنے مفاد کیلئے وقت آنے پر اس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔ کسی بھی منتخب حکومت نے آج تک اپنی حکومتی مدت پوری نہیں کی اور اس کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

پڑھیے اور سر دھنئے اور تاریخ کا مطالعہ بھی کیجئے۔ آپ کو سب معلوم ہو جائے گا کہ سچ کیا ہے؟

ڈاکٹر گوچ ایک بہترین مفکر ہے۔ اس کے الفاظ پڑھیں کہ اس نے کیا کہا ہے؟" کسی ملک میں آمریت اس وقت قائم ہوتی ہے جب ریاست کی سیاسی فضا انتہائی مایوس کن صورت حال اختیار کرلے اور ملکی معاملات نہایت نازک اور پیچیدہ صورت اختیار کرلیں۔ ایسی صورت میں عوام کی ذہنی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ ہر اچھی یا بری تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ " ڈاکٹر گوچ اپنے اس بیان کی تائید میں جنگِ عظیم اوّل کے بعد جرمنی میں ہٹلر اور اِٹلی میں مسولینی کی آمریت کا حوالہ بھی دیتا ہے۔

ثابت ہوا کہ آمریت ملک میں سیاسی اور معاشرتی بگاڑ کی صورت میں قائم ہوتی ہے اور آج ایک بار پھر آزادی رائے کے نام پر ملک کی فضا کو سوگوار بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ پہلے اِس وقت کی صاحبِ اقتدار پارٹی نے دھرنے دے دے کر اور جلسے کر کر کے ملک کی معیشت کو بریک لگائے رکھی اور اب موجودہ حزبِ اختلاف جماعتیں وہی کام کر رہی ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہ ملک کے ساتھ کیسا مذاق ہو رہا ہے؟ یہ ہمارا ملک کتنی جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ یہ کسی بادشاہ کی سخاوت کے طفیل حاصل نہیں کیا گیا۔

اس کی آزادی کےلئے لاشوں کے انبار لگے تھے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کہ عوام کے منتخب نمائندے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے آپس میں سیاست، سیاست کھیلیں اور عوام کی پہنچ میں دو وقت کی روٹی بھی نہ ہو، اور جب حالات بالکل افراد کے ہاتھوں سے باہر ہو جائیں تو پاک فوج کو کوسنے لگ جائیں۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ ملک کے ساتھ ظلم ہے۔ جمہوریت کے ساتھ اور جمہوریت کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ جمہوریت کیا ہے؟ جمہوری حکومت کا مقصد معاشرے کی عمومی زندگی کی خدمت کرنا ہے اور ناہمواریوں کو دور کرنا ہے جو اس کے راستے میں حائل ہوں۔

یہ جمہوریت ہے کہ عوام جن افراد کو منتخب کرتی ہے ان کا کام صرف عوام کے مفاد کیلئے کام کرنا ہے۔ لیکن آج پاکستان میں سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ یہاں جمہوریت صاحب اقتدار جماعت اور حزب اختلاف جماعتوں کے درمیان سے ابھی تک نہیں نکل رہی۔ عوام منتظر ہیں کہ ان کو بھی ریلیف دیا جائے۔ ادویات کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔ کھانے پینے کی اشیاء کو ان کی پہنچ میں لایا جائے۔ گھی اور آٹے کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔ بجلی کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔ یہی عوام کی خدمت ہے۔ یہی جمہوریت کے اصول ہیں۔

ہمیں ماضی کے واقعات سے سبق سیکھنا ہو گا جو مارشل لاء کا سبب بنے۔ ایک بھنور انیس سو اکہتر میں بھی آیا تھا جس نے ہمیں دو لخت کر دیا۔ ہمیں ایسے تلخ تجربات کرنے سے رکنا ہوگا۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے عوام کا احترام کرنا ہوگا۔ غریبوں کے احساس اور جذبات کو سمجھنا ہو گا۔ اگر ہم نہیں سمجھیں گے۔ ملکی مفاد کو نظرانداز کرتے جائیں گے۔ تو وقت بہت غلط انداز سے سمجھاتا ہے۔ اس کے سمجھانے کا انداز بہت خطرناک ہے۔

ہمیں وقت کے سمجھانے سے بچنا چاہئے۔ وہ پھر سمجھاتا ہی نہیں بلکہ پرانی کوتاہیوں کی عبرت ناک سزا بھی دیتا ہے۔ خطرناک سزا دیتا ہے۔ آج پاکستان کا ہر فرد، خدمت کے نام پر دھوکہ دینے والے سیاستدانوں کو، اور جو عوام کو استعمال کرکے حکومت میں آنے کے خواب دیکھتے ہیں، پاکستانی قوم کا ہر فرد یہی کہہ رہا ہے کہ

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ نہ لگا

میں گر پڑوں گا دیکھ، سہارا نہ دے مجھے

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal