Aur Tamam Bayaniye Zameen Bos Ho Gaye
اور تمام بیانیے زمین بوس ہو گئے
تقریباً آٹھ مہینے قوم کو ذہنی ہیجان میں مبتلا رکھنے کے بعد بالآخر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے "حقیقی آزادی" حاصل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اب وہ اس فیصلے پر قائم رہتے ہیں یا حسبِ سابق یوٹرن لیتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس دوران انہوں نے ایک جھوٹا سازشی بیانیہ بنایا، پاک فوج کے خلاف شرمناک مہم چلائی، ان کو میر جعفر کہا، میر صادق کہا، یہ سب اس لیے تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کوئی غیر آئینی کام کرنے سے انکار کر دیا تھا، خان صاحب نے تحریک عدم اعتماد کے بعد تقریباً ستر سے زائد جلسے کیے، اپنی ہر تقریر میں انہوں نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی، بھارت میں جشن منائے گئے، خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو مجبوراً میڈیا کے سامنے آنا پڑا، وضاحت کرنا پڑی کہ ہم پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔
غضب خدا کا، جب ملکی خود مختاری اور سالمیت کا دفاع کرنے والی فوج ہی میڈیا پر آ کر اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہو جائے اس وقت دشمن اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پروپیگنڈا کیوں نہ کرے گا؟ لیکن پاک فوج نے پھر بھی صبر سے کام لیتے ہوئے کوئی غیر آئینی قدم نہیں اٹھایا اور قوم کو اعتماد میں لینے کی بھرپور کوشش کی۔ نیازی صاحب نے نئے آرمی چیف کو نامزد ہونے سے پہلے ہی متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن پوری طرح ناکام رہے کیوں کہ پاکستان کا ایک آئین بھی ہے اور اسی کے تحت فیصلے ہوتے رہیں گے، کسی پریشر گروپ یا سیاسی جماعت کے دباؤ سے تو آئینی عمل کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔
ان آٹھ مہینوں میں عمران خان نے کئی بیانیے بنائے اور پھر ان سے راہ فرار اختیار کی، اور اس عمل میں انہوں نے آئین کو بھی کئی بار توڑا، خان صاحب اپنے آپ کو بہت بڑا جمہوری سمجھتے ہیں بلکہ جمہوریت کا داعی سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت میں میڈیا کا گلا دبانے کیلئے جس طرح پیکا جیسے قانون میں ترمیم کی کوشش کی، اور اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کیلئے جس طرح اختیارات کا استعمال کیا، ان کا سارا جمہوری پن یہیں ختم ہو جاتا ہے۔
خان صاحب کے خلاف آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی، پارلیمانی طرز حکومت کا یہ اصول ہے کہ جب ایوان، وزیراعظم پر عدم اعتماد کر دے تو اس کو وزیراعظم رہنے کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن خان صاحب نے تحریک عدم اعتماد پر بجائے ووٹنگ کروانے کے، جھوٹے سازشی بیانیے کو بنیاد بناتے ہوئے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کر دیا حالانکہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے کے بعد کسی صورت بھی اسمبلی تحلیل نہیں کی جا سکتی۔
اس مذموم حرکت کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے اسمبلی بحال کرنے کا حکم دیا، اور دوبارہ ووٹنگ کروانے کا حکم دے دیا، خان صاحب نے پھر ووٹنگ کروانے کی بجائے، اپنے سپیکر سے ہی سازشی بیانیے کا پرچار کرواتے ہوئے استعفیٰ لے لیا اور رات بارہ بجے کہیں جا کے ووٹنگ کروانا پڑی، کیا یہی جمہوریت ہے؟ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد خان صاحب نے بھرپور انداز سے سازشی بیانیے کو عوام کے خون میں شامل کرنے کی کوشش کی۔
متعدد بار چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی سازش کے ثبوت نہیں ملے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کئی بار اس بات کو دہرایا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک میں بیرونی سازش ہو اور ہم خاموش رہیں؟ شہباز شریف صاحب نے بھی کئی بار کہا کہ اگر سازش ثابت ہو جائے تو بیشک ہمیں پھانسی پر لٹکا دیں، لیکن خان صاحب نے بھرپور انداز سے ذہن سازی کی۔
پچیس مئی کو عوام کا استعمال کرتے ہوئے خان صاحب نے وفاق پر چڑھائی کرنے کی بھی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور ریاست کو مجبوراً طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ کیونکہ طاقت کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب فسادات سے بچنے کیلئے عوام کو ڈرانا، دھمکانا مقصود ہو، یا سرکاری احکامات پر عمل درآمد کیلئے سختی کرنا ضروری ہو یا پھر قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا کے طور پر طاقت کا استعمال کیا جائے۔
خان صاحب نے بھرپور انداز سے اس بیانیے کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ امریکہ نے میری حکومت گرائی لیکن گزشتہ دنوں غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے وقت اس بیانیے سے راہ فرار اختیار کر لی۔ خان صاحب نے فرمایا کہ امریکی غلامی نامنظور لیکن غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ حکومت میں آئے تو بھارت اور امریکہ سے اچھے تعلقات رکھیں گے کیونکہ امریکہ سپر پاور ہے۔ جلسوں میں عوام کو اشتعال دلاتے رہے لیکن خود کیا کر رہے ہیں؟ یہ بھی عوام کو سوچنا ہوگا۔
خان صاحب نے پچھلے مہینے لانگ مارچ شروع کیا، اس لانگ مارچ میں کسی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فائرنگ کر دی، خان صاحب نے مجرم پکڑ لیے جانے کے بعد بھی عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ کیا یہ دہرا معیار نہیں ہے؟ دوسروں کو چوروں کا ٹولہ کہنے والے اپنے اوپر لگے ہوئے الزامات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ جب جواب لینے کیلئے عدالتوں میں بلاتے ہیں تو بجائے جواب دینے کے، ان کو فسطائیت یاد آ جاتی ہے۔
سائفر سے کھیلنے کے بعد خان صاحب اب ملکی معیشت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ انہی کے دور حکومت میں پینڈورا پیپرز میں ان کے وزیروں کا نام آیا، رنگ روڑ سکینڈل میں ان کے وزراء کا نام آیا، چینی سکینڈل، ادویات سکینڈل، آٹا سکینڈل، ماسک سکینڈل، کھاد سکینڈل، فارن فنڈنگ کیس، لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اور آج خان صاحب کے نام کے ساتھ توشہ خانہ سکینڈل چسپاں ہوگیا ہے۔
کاش، عوام پاکستان اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی سمجھ سکتی، اگر سمجھ جاتی تو کبھی بھی جھوٹ کی سیاست کا حصہ نہ بنتی، ملک اس وقت مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہ جمہوری رویے نہیں ہیں کہ آپ حکومت میں ہوں تو اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا دیں، حکومت سے باہر ہوں تو آئے دن احتجاج، دھرنے، اور لانگ مارچ کر کے ملکی معیشت کو دیوار کے ساتھ لگا دیں۔
عوام پاکستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ انہی بیانیوں کے چکروں میں پھنسی رہنا چاہتی ہے یا پھر ملک کیلئے بھی سوچنا چاہتی ہے؟
یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ بائی الیکشن میں پانچ، پانچ سیٹیں جیتنے کے بعد بھی پارلیمنٹ جانا تو درکنار حلف تک نہ اٹھائیں، تو عوام کے مسائل حل کون کرے گا؟ عوام آپ کو اپنے مسائل کے حل کیلئے منتخب کرتی ہے اس لیے منتخب نہیں کرتی کہ آپ ان کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہیں۔ اور آپ ان کو سہولت دینے کی بجائے آئے دن دھرنے، احتجاج کر کے اپنی مقبولیت دکھاتے رہیں۔
خدارا، ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، اگر اب بھی ملک کیلئے نہ سوچا گیا، تو وقت آپ کو سوچنے کا موقع نہیں دے گا۔ ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام لانے کا واحد حل مذاکرات ہیں، الیکشن کسی صورت بھی نہیں۔ مذاکرات سے ہی معاشی استحکام آ سکتا ہے۔ اور الزامات، جھوٹے بیانیوں کو کچلا جا سکتا ہے، وگرنہ نہیں، کبھی بھی نہیں۔