Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Ajab Rasam Hai Chara Garon Ki Mehfil Mein

Ajab Rasam Hai Chara Garon Ki Mehfil Mein

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں

اور آخرکار وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وہی پتھر اٹھا کر عوام کے سروں پر دے مارا۔ غضب خدا کا ایک ساتھ ہی پینتیس روپے اضافہ، عوام کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے۔ پٹرول مافیا، اور ڈیزل مافیا نے عوام کو ذلیل و رسواء کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عوام کو پہلے آٹا نہیں مل رہا تھا اور جب انہوں نے پٹرول کے نایاب ہونے کے بارے خبریں سنی تو وہ چکرا کر رہ گئے۔

مریم نواز کی لندن سے واپسی پر کروڑوں، اربوں خرچ کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہماری مجبوری ہے۔ یہ معاہدہ آئی ایم ایف سے عمران احمد خان نیازی نے کیا تھا۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ اس معاہدے پر نظر ثانی کروائی جائے لیکن ہم ناکام رہے۔ اب اس ناکامی کا خمیازہ عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کرے گی۔

معزز قارئین۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کی فریاد اور آہ و پکار سننے والا کوئی نہیں۔

میں اس عوام کی بات نہیں کر رہا جن کے پاس کاریں، بنگلے، عالی شان مکان اور حتیٰ کہ اپنے پرائیویٹ جہاز تک ہیں۔ میں تو ان غریب لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو اتنی سردی میں بھی سیلاب سے متاثر ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ میں اس عوام کی بات نہیں کر رہا جن کی اولادیں برطانیہ، امریکا، چائنہ، یا پھر آسٹریلیا جیسے ممالک میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ میں تو اس عوام کی بات کر رہا ہوں جو اپنی اولادوں کو ان کے پڑھنے کی عمر میں ہتھیار اور اوزار پکڑانے پر مجبور ہیں۔ میں اس عوام کی بات نہیں کر رہا جو معمولی بخار ہونے پر امریکہ یا لندن میں علاج کرانے چلے جاتے ہیں۔

میں تو اس عوام کی بات کر رہا ہوں جو ٹی بی اور یرقان جیسے خطرناک امراض کی ادویات سرکاری ہسپتالوں سے لینے کیلئے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ میں اس عوام کی بات نہیں کر رہا جن کے پاؤں میں لاکھوں کے جوتے ہیں۔ میں تو اس عوام کی بات کر رہا ہوں جن کے پاؤں میں جوتوں کی جگہ کانٹوں کی چبھن ہے۔ میں اس عوام کی بات نہیں کر رہا کہ جو جب چاہیں فائیو سٹار ہوٹل سے کھانا منگوا لیں میں تو اس عوام کی بات کر رہا ہوں جو کوڑے کے ڈھیر سے کھانا تلاش کرتے ہیں۔ میں اس عوام کی بات کر رہا ہوں جو سارا دن مزدوری کرتے ہیں اور شام کو سات سو یا آٹھ سو روپے گھر لے کر جاتے ہیں اور اپنے ہی بچوں سے نظریں چھپا کر کہتے ہیں۔

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں۔

لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں۔

غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو۔

امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔

معزز قارئین۔

پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کا سب سے بڑا سبب منی لانڈرنگ ہے کیونکہ۔

اس دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے کرائمز ہوتے ہیں سب بلیک منی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ سارے فساد کی جڑ بلیک منی ہے، سبھی ناجائز کاموں کی وجہ بھی یہی ہے۔ چور، لٹیرے، گورنمنٹ کو خریدنے والے بااثر کاروباری لوگ، اشرافیہ، بڑے بڑے سیاستدان، ان سب کا وجود ان سب کے پاس آنے والی وہ بےایمانی کی کمائی ہے، جو ان کو سبھی غریبوں کا خون چوسنے پر مجبور کرتی ہے۔ کسی امیر کے کالے دھن کا ایک بڑا حصہ اگر ملکی قرضہ اتارنے کیلئے وقف کر دیں گے تو اس ملک کا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ آج امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ گردشی قرضے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ ان قرضوں کا پیسہ مہنگائی کر کے عوام سے چھینا جا رہا ہے۔ اشرافیہ کو مہنگائی کی پرواہ ہی نہیں۔ ان کے بینکوں میں پیسے جمع ہیں، مسئلہ تو ان غریبوں کو ہے جو بیمار ہوں یا تندرست، کام کریں گے تو پیسہ کما سکیں گے ورنہ بھوک سے بلک بلک کر اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔

یہ باتیں سوچنے کی ہیں اور ساتھ ساتھ غور کرنے کی بھی ہیں۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال ڈال کر اور بےتحاشہ مہنگائی کر کے اور دوسرے ملکوں سے قرضے لے کر ملکی قرضوں کو کسی صورت بھی اتارا نہیں جا سکتا۔ اور زرمبادلہ کے ذخائر کو کسی صورت بھی بڑھایا نہیں جا سکتا۔ اگر ملک پر قابض اشرافیہ ہی اپنے کالے دھن کو پاکستان لا کر اور باہر کے بینکوں میں گلتی اور سڑتی دولت کو پاکستان لے آئیں تو قرضوں کا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پاکستان پھر ہی خودمختار ملک کہلانے کا حقدار بن پائے گا، آئی ایم ایف کے شر سے پھر ہی بچا جا سکے گا۔ وزیراعظم صاحب کو بھی یہ کہنے کہ ضرورت نہیں پڑے گی کہ آئی ایم ایف ہمیں ناک رگڑنے پر مجبور کر رہا ہے۔

معزز قارئین۔

یہ غریب دن رات محنت کر کے زندگی گزارتے ہیں، لیکن چند لوگ گھپلے کر کے اور بلیک میل کر کے پبلک کا پیسہ لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنا کر کچھ روپے رشوت دے کے اپنی جائیداد کو لیگل کر لیتے ہیں۔ یہ غریب اپنے خون کے ایک ایک قطرے کو پانی کی طرح بہا کر گوبر میں، گٹر میں، گلی میں، اور کنوؤں میں ہر روز کام کر کے پیسے کماتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو پال سکیں اور کم از کم ایک وقت کی روٹی کھلا سکیں۔

گھی، مرچ، نمک، آٹا، سبزی، صابن، پٹرول اور بجلی یہاں تک کہ اپنے پینے کے پانی پر اور تن ڈھکنے والے کپڑوں کے پیسوں میں بھی کٹوتی کر کے سرکار کو کسی نہ کسی صورت میں پیسے دیتے آ رہے ہیں۔ لیکن ہمارے محب وطن سیاستدان ان پیسوں کی آسانی سے خردبرد کر کے اپنے ملک سے باہر، دوسرے ملکوں میں اربوں کی جائیدادیں بناتے آ رہے ہیں۔ اپنے ملک کے خزانے کو خالی کر کے، مہنگائی کا بوجھ لوگوں کے سروں پر ڈال ڈال کر لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے لیکن اس کیلئے ذمہ دار کون ہے؟

اس کیلئے ذمہ دار صرف یہ حکمران ہی نہیں بلکہ ہم سب بھی ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہر بار ووٹ ڈال ڈال کر جتانے والی اس بے وقوف عوام کو کب شعور آئے گا؟ یہی عوام اپنی مشکلات کو کم کروانے کیلئے اور معاشرے میں آسانی سے سانس لینے کیلئے ان کو پارلیمنٹ بھیجتی ہے۔ اور وہاں صرف ان کی ایک دوسرے کو چور چور کہنے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

معزز قارئین۔

پاکستان کے قرضوں میں اضافے کا سبب بھی یہی منی لانڈرنگ ہے، جس سے آئے روز مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپنی حکومت میں عمران نیازی صاحب عوام کو تلقین کرتے تھے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، اور اب شہباز شریف صاحب عوام کو تنبیہ کرتے ہیں کہ مہنگائی مزید کرنا پڑے گی کیونکہ یہ ہماری مجبوری ہے۔

خدارا، ان غریب لوگوں پر کچھ تو رحم کیا جائے۔ کچھ تو احساس کیا جائے۔ ان کو جینے کا حق دیا جائے۔ عوام کو مسائل در مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عوام پاکستان اچھی خبروں کیلئے ترس چکے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ اچھی خبر نہیں کہ آج ورلڈ بینک نے پاکستان کو اتنے ارب قرضہ دے دیا۔ اور آج آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ ہوگیا۔ کیا یہ اچھی خبر ہے؟

عوام پاکستان کو اتنا بےوقوف سمجھا ہے؟ کیا ان کو اتنا بھی علم نہیں کہ وہ قرضہ ہمیں ہی ٹیکسوں کی صورت میں واپس کرنا ہے۔ آج سبزیاں، دالیں، آٹا، چینی، اور گھی عوام کی پہنچ سے بہت دور جا چکے ہیں۔ آٹا مہنگا بلکہ نایاب ہو چکا ہے، اور پیسوں سے بھی نہیں مل رہا۔ اور یہاں ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو کے سرٹیفیکیٹ بانٹے جا رہے ہیں۔ عوام کا کسی کو کوئی احساس نہیں۔

خدارا، عوام پاکستان کی پکار کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ وہ چیخ چیخ کر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں۔

لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں۔

غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو۔

امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔

Check Also

Shaitan Ke Agent

By Javed Chaudhry