14 August, Nazria e Pakistan Ki Takmeel Ka Din
چودہ اگست، نظریہ پاکستان کی تکمیل کا دن

چودہ اگست کا سورج ہر سال برصغیر کے اُن مٹ جانے والے نقوش کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کر دیتا ہے، جنہیں تاریخ اپنے سنہری اور خونچکاں اوراق میں سنبھالے بیٹھی ہے۔ یہ محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک نظریے کی مجسم صورت، ایک خواب کی عملی تعبیر اور ایک قوم کے عزمِ صمیم کا وہ مظہر ہے جس کی مثال اقوامِ عالم کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ کاوش محض سیاسی جدوجہد کا شاخسانہ نہ تھی، بلکہ یہ ایک فکری و تہذیبی احیاء کی تحریک تھی، جو اپنی بنیاد میں قرآن و سنت کے آفاقی اصولوں، تہذیبی بقاء کی تمنا اور اسلامی تشخص کے تحفظ کی لازوال خواہش سے مزین تھی۔
نظریہ پاکستان کی بنیاد اُس روز رکھی گئی جب مسلمانوں نے یہ حقیقت جان لی کہ متحدہ ہندوستان میں ان کی مذہبی، سماجی اور سیاسی شناخت روز بروز مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں پر محکومی کی جو طویل رات مسلط ہوئی، اس میں ان کی زبان، کلچر، معیشت، حتیٰ کہ مذہب تک کو سیاسی مصلحتوں کے شکنجوں میں جکڑ دیا گیا۔ انگریز استعمار اور ہندو اکثریت کے باہمی مفادات نے مسلمانوں کو ایسے سماجی حاشیے پر دھکیل دیا جہاں سے ان کی قومی زندگی کا احیاء محض ایک معجزہ دکھائی دیتا تھا۔ مگر یہ وہی امت تھی جس کے اسلاف نے صحرائے عرب سے نکل کر نصف دنیا کو اپنے اخلاق، عدل، علم اور تہذیب کے نور سے منور کیا۔ چنانچہ ان کے دل میں یہ احساس انگڑائی لینے لگا کہ اپنی شناخت کی بقاء کے لیے ایک الگ خطۂ زمین ناگزیر ہے۔
اس فکری تحریک کو باضابطہ صورت دینے کا سہرا علامہ اقبال کے سر ہے، جنہوں نے اپنے خطبۂ الہٰ آباد 1930ء میں یہ تصّور پیش کیا کہ شمال مغربی ہند میں ایک آزاد مسلم ریاست قائم کی جائے، جہاں مسلمان اپنے دین اور تہذیب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اقبال کا یہ تصور محض سیاسی جغرافیہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک تہذیبی قلعہ تھا، جو برصغیر کے مسلمانوں کو فکری و عملی غلامی سے نجات دلا سکتا تھا۔ محمد علی جناح کی قیادت نے اس تصّور کو عملی حکمتِ عملی میں ڈھالا۔ آل انڈیا مسلم لیگ، جو ابتدا میں محض سیاسی نمائندگی کا پلیٹ فارم تھی، رفتہ رفتہ ایک نظریاتی قافلہ بن گئی جس کے کارواں میں علما، مفکرین، خواتین، طلبہ اور عام مسلمان شامل تھے۔
چودہ اگست 1947ء اس مسلسل جدوجہد کی آخری منزل تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اختتام نہیں بلکہ ایک عظیم آغاز تھا۔ اس دن جب سبز ہلالی پرچم لاہور، کراچی اور ڈھاکہ کی فضا میں لہرا رہا تھا، تو یہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کی خوشی نہیں تھی، بلکہ ایک تہذیبی، مذہبی اور فکری نظریے کے جیت جانے کی نوید تھی۔ اس دن کا ہر لمحہ اُن قربانیوں کا امین ہے جو لاکھوں مرد و زن نے دی تھیں، وہ قافلے جو تقسیمِ ہند کے الم ناک مناظر سے گزرے، وہ ماں باپ جن کے سامنے ان کے لختِ جگر شہید ہوئے، وہ بیٹیاں جو اپنی عزت پر قربان ہوگئیں اور وہ بزرگ جو محض اس اُمید پر وطن کی خاک پر قدم رکھنے سے پہلے جان دے بیٹھے کہ اُن کی آنے والی نسلیں ایک آزاد اسلامی فضاء میں سانس لیں گی۔
نظریہ پاکستان کا جوہر دراصل یہی تھا کہ ایک ایسی مملکت وجود میں آئے جہاں اسلامی اصولِ حکمرانی کو عملی جامہ پہنایا جاسکے، عدل و انصاف محض کتابی جملہ نہ ہو بلکہ ریاست کا بنیادی ستون بنے، معیشت سود کی آلائشوں سے پاک ہو اور جہاں ہر شہری کو بلاامتیاز مذہب و رنگ تحفظ اور مساوات میسر ہو۔ مگر یہ امر بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس نظریے کی تکمیل محض آزادی کے حصول سے وابستہ نہ تھی بلکہ اس کی تکمیل اس وقت ہوگی جب ریاستِ پاکستان حقیقی معنوں میں اس تصور کو نافذ کرے گی جس کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی۔
تاریخ کا یہ بھی جبر ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ہی ہمیں لامحدود چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاجرین کی آبادکاری، معاشی بدحالی، ادارہ جاتی کمزوری اور سرحدی تنازعات نے نوزائیدہ مملکت کو کڑی آزمائشوں میں ڈال دیا۔ مگر یہ قوم جانتی تھی کہ جس خدا نے یہ معجزہ کرکے دکھایا، وہ اپنی نصرت سے محروم نہیں کرے گا۔ یہی ایمان اور یہی ولولہ ہمیں آگے بڑھاتا رہا۔
جب ہم چودہ اگست مناتے ہیں، تو سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے خوشی کے ترانے گاتے ہوئے یہ نہ بھولیں کہ یہ دن صرف جشن و چراغاں کا نہیں، بلکہ احتساب و تجدیدِ عہد کا دن بھی ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے واقعی اس نظریے کی حفاظت کی جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی؟ کیا ہم نے عدل، مساوات، ایمانداری اور خودداری کو اپنی ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا؟ یا ہم محض رسمی تقریبات تک محدود ہو کر اپنے اسلاف کی قربانیوں کا قرض بھلا بیٹھے؟
چودہ اگست کا حقیقی مفہوم تب ہی اجاگر ہوگا جب پاکستان نہ صرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی لحاظ سے بھی مضبوط ہو۔ جب ہماری معیشت سود سے پاک ہو، عدالتیں ظالم و مظلوم کے درمیان بلاخوف فیصلہ سنائیں اور تعلیم ایسا نظام پیدا کرے جو نئی نسل کو مغربی غلامی سے آزاد کرکے اسلامی ورثے سے جوڑے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان محض ایک سرحدی حقیقت نہیں بلکہ ایک عہد ہے ایسا عہد جو ہمارے بزرگوں نے اللہ کے حضور کیا تھا کہ ہم اس خطے کو عدل، امن، علم اور روحانی عظمت کا گہوارہ بنائیں گے۔ اگر ہم نے اس عہد کو بھلا دیا، تو یہ آزادی محض رسمی جشن تک محدود رہ جائے گی۔ لیکن اگر ہم نے اس کی پاسداری کی، تو چودہ اگست ہمیشہ نظریہ پاکستان کی تکمیل کا دن کہلائے گا، نہ صرف تاریخ کی کتابوں میں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی یہ دن جگمگائے گا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو نظریہ پاکستان کے مفہوم اور مقصد سے آشنا کرنا ہے اور ان کو بتانا ہے کہ پاکستان کس لیے بنا تھا اور ہمارے اسلاف نے اس خطہ ارض کیلئے کتنی قربانیاں دی تھیں۔

