Trends Chalte Rahen Ge
ٹرینڈز چلتے رہیں گے
پاکستان میں چائلڈ لیبر کا قانون ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوتا۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیوں کہ ہم نے قانون کی کتاب صرف دنیا کو یہ دکھانے کے لئے بنائی تھی کہ ہم ایک مہذب قوم ہیں۔ ہمارے اصول وقواعد ہیں۔ ہمارے ہاں سزاوجزا کا تصور بھی موجود ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہم کسی بھی لحاظ سے مہذب نہیں ہیں۔ اور نا ہی اچھے عملی مسلمان ہیں۔ ہم صرف کلمہ پڑھنے کی حد تک مسلمان ہیں۔ اور ہمارامہذب پن صرف کھانے پہننے تک ہے۔ اگر ہم مہذب معاشرے میں ہوتے تو کیا رضوانہ جیسا واقعہ پیش آتا؟ اگر ہم عملی مسلمان ہوتے تو کیا رضوانہ کے ساتھ یہ سلوک ہوتا؟
رضوانہ ایک عام لڑکی، اس جیسی لڑکی ہر اس گھر میں پائی جاتی ہے۔ جہاں خواتین اپنا بچہ اٹھانے اور گھر کے کام کرنے سے معذور ہے۔ یہ بچیاں جو خود کمسن ہوتی ہیں۔ ان خواتین کے بچوں کو گود میں اٹھاتی ہیں۔ ان بچوں کے وہ کام کرتی ہیں جو صرف ماں کا فرض ہیں۔ ان کی گودوں میں پرورش پانے والے بچے ان کو مارتے بھی ہیں ان کے منہ بھی نوچتے ہیں۔ اور ماں کی کمی کا سارا غصہ ان پر اتارتے ہیں۔
انھیں کھانا بھی کم مقدار میں دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ چوری کرکے کھانے کی عادی ہو جاتی ہیں۔ ان کے بال کاٹ کر انھیں بدصورت بنانے کی بھی مکمل کوشش کی جاتی ہے۔ تا کہ گھر کے مردوں کی نظر میں نا آ سکیں۔ کیونکہ ان کی تنخواہیں والدین وصول کرتے ہیں۔ اس لئے یہ پیسے کو حسرت سے دیکھتی ہیں اور بعض اوقات چھوٹی موٹی چوری بھی کر لیتی ہیں۔ انھیں زیادہ دیر سونے نہیں دیا جاتا۔ یہ اعلیٰ صبح جاگتی ہیں اور رات دیر تک کام میں مشغول رہتی ہیں۔
شامت تب آتی ہے۔ جب یہ کھانا چراتے یا کوئی ایسا کام کرتے پکڑی جاتی ہیں۔ جس کی سزا کے طور پر خاتون خانہ مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیتی ہے۔ عام طور پر یہ بچیاں بے حد سخت جان ہوتی ہیں۔ مگر ہر چیز کی ایک حد ہے۔ جب لمٹ کراس ہو جائے تو بڑے سے بڑا سخت جان بھی ہمت ہار جاتا ہے۔
رضوانہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ابھی تک بچی کا بیان سامنے نہیں آیا۔ نا ہی دوسری طرف سے بات واضح ہے۔ مگر ہر طرف شور وغل ضرور ہے۔ اچھی بات ہے۔ شور ہونا چاہیے۔ ٹرینڈز چلنے چاہیے۔ تا کہ پتا چلے یہ معاشرہ اندھوں اور گونگے بہروں کا نہیں ہے۔ ہم ظلم کوبرا کہنے والےلوگ ہیں۔
لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ اور یہ آواز ہر تھوڑے عرصے کے بعد اسی طرح اٹھتی رہے گی؟
غربت ایک ایسی شے ہے۔ جس سے پناہ مانگنے کا حکم ہمارے نبی ﷺ نے دیا ہے۔ کہ یہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔
اس غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو ان لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اگر حکومت اس پر پابندی بھی لگا دے تو یہ کام چوری چھپے ہوگا۔ تو پھر اس کام کو آرگنائزڈ طریقے سے کیوں نہیں کیا جاتا؟
ایک ادارہ ہی بن جائے جس میں جو بچے پڑھنا نہیں چاہتے انہیں گھر کے کاموں کی ٹریننگ دی جائے۔ انھیں ایک مناسب طریقے سے تربیت دی جائے۔ ان کی اخلاقی تربیت بھی کی جائے۔ انھیں سرٹیفکیٹ دیا جائے۔ ادارے کے زریعے انھیں جاب ملے۔ کوئی شکایت ہوتا اسے حل کرنے کا ادارہ زمہ دار ہو۔
لیکن یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر یہ سب کچھ ہونے لگا تو پاکستان کے تماشے تو ختم ہو جائیں گے۔ اور ہم ایک تماش بین قوم ہیں۔ ہمیں ایسے تماشے پسند آتے ہیں۔ اس لئے تو ہمارے صاحب اقتدار ہمیں بھرپور تماشے دکھاتے رہتے ہیں۔
آخر میں میری ہاتھ جوڑ کر صاحب ثروت لوگوں سے التجا ہے کہ اگر بچے خود نہیں سنبھالے جاتے تو پیدا ہی نا کریں۔ اور اگر بڑے گھر مینج کرنا مشکل ہیں تو اتنا گھر بنائیں جسے خاتون خانہ سنبھال سکے۔ کیونکہ آپ کے آخری گھر میں کوئی ایسی شے نہیں ہوگی جس کے لئے ملازم کی ضرورت پڑے۔۔ ایک جملہ کبھی پڑھا تھا یاد اگیا۔
An angel stand in the front of graveyard and said to all peoples, Dear sir luggage are not allowed